ذالك بانهم قالوا لن تمسنا النار الا اياما معدودات وغرهم في دينهم ما كانوا يفترون ٢٤
ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا۟ لَن تَمَسَّنَا ٱلنَّارُ إِلَّآ أَيَّامًۭا مَّعْدُودَٰتٍۢ ۖ وَغَرَّهُمْ فِى دِينِهِم مَّا كَانُوا۟ يَفْتَرُونَ ٢٤
ذٰلِكَ
بِاَنَّهُمْ
قَالُوْا
لَنْ
تَمَسَّنَا
النَّارُ
اِلَّاۤ
اَیَّامًا
مَّعْدُوْدٰتٍ ۪
وَّغَرَّهُمْ
فِیْ
دِیْنِهِمْ
مَّا
كَانُوْا
یَفْتَرُوْنَ
۟
3

ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلا أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ وَغَرَّهُمْ فِي دِينِهِمْ مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ

” ان کا یہ طرزعمل اس وجہ سے ہے کہ وہ کہتے ہیں ۔” کہ آتش دوزخ تو ہمیں مس تک نہیں کرے گی اور اگر دوزخ کی سزا ہم کو ملے گی بھی تو چند روز “ ان کے خود ساختہ عقیدوں نے ان کو اپنے دین کے معاملے میں بڑی غلط فہمیوں میں ڈال رکھا ہے۔ “

یہ ہے ان کے اعراض کا اصل سبب ‘ جس کی وجہ سے وہ کتاب اللہ کے مطابق اپنے فیصلے نہیں کراتے ۔ اور ان کے موقف میں یہ تناقض ان کے اس دعوے کے باوجود ہے کہ وہ اہل کتاب ہیں ‘ دراصل وہ قیامت کے دن حساب و کتاب کے بارے میں سنجیدہ ہی نہیں ہیں ۔ یہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن پورا پورا انصاف دین گے ۔ اس پر انہیں کوئی بھروسہ نہیں ہے اور یہ بات ان کے اس قول سے اچھی طرح ظاہر ہوتی ہے کہ دوزخ کی آگ انہیں مس تک نہ کرے گی ۔ اگر کوئی سزا ہوگی تھی تو وہ چند روزہ ہوگی ۔ اگر یہ حقیقت نہیں تو پھر کیوں انہیں آگ نہیں چھوئے گی ۔ اور ان کو چند روزہ سزا ہی کیوں ہوگی ۔ وہ اصول الدین سے کیوں پھرگئے ہیں ۔ وہ کتاب اللہ کے مطابق فیصلے کیوں نہیں کراتے ۔ اگر ان کا اللہ کے عدل و انصاف پر یقین ہے تو پھر ان کا یہ موقف کیوں ہے ؟ یہ ممکن نہیں ہے اگر انہیں یوم الآخرۃ کے حساب کا یقین ہوتا تو وہ ایسا ہرگز نہ کرتے ۔ یہ دراصل وہ جھوٹ بولتے ہیں جس پر خود انہیں بھی یقین نہیں اور وہ اپنے ان خودساختہ عقائد کے جال میں خود پھنس گئے ہیں وَغَرَّهُمْ فِي دِينِهِمْ مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ……………” ان کے خودساختہ عقیدوں نے ‘ ان کو ان کے دین کے معاملے میں بڑی غلط فہمیوں میں ڈال دیا ہے۔ “

حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی دل میں قیام قیامت کا صحیح عقیدہ موجود ہے تو وہ شخص قیامت کے دن کے حساب و کتاب اور اللہ کی جانب سے عدل و انصاف کے بارے میں وہ سوقیانہ تصورات نہیں اپناسکتا جو یہ لوگ اپنائے ہوئے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی معقول شخص کے دل و دماغ میں خوف آخرت ‘ اللہ کے مقابلے میں حیادار انہ موقف ہونے کے بعد یہ بات آہی نہیں سکتی کہ اسے کتاب الٰہی کے مطابق فیصلے کے لئے بلایا جائے اور وہ انکارکردے یا اعراض کردے۔

آج ہمارے دور میں بھی مسلمانوں کی حالت ایسی ہی ہے جیسا کہ اہل کتاب کی تھی ۔ آج کے مسلمان بھی بزعم خود مسلمان ہیں ۔ اور جب انہیں یہ دعوت دی جاتی ہے کہ آؤ کتاب اللہ کے مطابق اپنے فیصلے کرائیں اور شریعت نافذ کردیں تو وہ روگردانی کرتے ہوئے اس بات سے انکار کرتے ہیں ان میں بعض کھاتے پیتے لوگ اس قدر بےحیا ہوگئے ہیں ۔ زندگی دنیا کا نام ہے اور دنیا کے ساتھ دین کا تعلق کیا ہے ۔ ان لوگوں کا خیال یہ ہے کہ لوگوں کی روزمرہ کی عملی ‘ اقتصادی اور اجتماعی روابط کے اندر دین کو گھسیڑنے کی ضرورت ہی کیا۔ بلکہ اب وہ کہتے ہیں کہ خاندانی زندگی میں بھی دین کی ضرورت نہیں ہے۔ اور ان خیالات کے حامل ہونے کے بعد بھی وہ مسلسل یہ دعویٰ کئے چلے جارہے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں ۔ اس کے بعد ان میں سے بعض اس احمقانہ دھوکے میں مبتلا ہیں کہ اللہ انہیں پاک وصاف کرنے کے لئے صرف چند روز تک آگ میں ڈالے گا ۔ اس کے بعد وہ جنت کی طرف لے جائے جائیں گے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ مسلمان نہیں ہے۔ یہ حقیقت نہیں ہے ۔ اور یہ اہل اسلام بھی دین سے اسی طرح دور ہوگئے ہیں جس طرح اہل کتاب دور ہوگئے تھے ۔ اور یہ لوگ دراصل دین سے اس طرح بسہولت نکل گئے ہیں جس طرح کسی کے ہاتھ سے مچھلی چھوٹ جاتی ہے ۔ یہ اس حقیقت سے نکل گئے جسے اللہ نے پسند فرمایا تھا۔ اس لئے اسلام سے مراد انقیاد اور اطاعت ہے ۔ اور زندگی کے ہر شعبے میں اللہ سے ہدایت اور تعلیم لینے کا نام اسلام ہے ۔