آپ 37:7 سے 37:10 آیات کے گروپ کی تفسیر پڑھ رہے ہیں
وَحِفْظًا
مِّنْ
كُلِّ
شَیْطٰنٍ
مَّارِدٍ
۟ۚ
لَا
یَسَّمَّعُوْنَ
اِلَی
الْمَلَاِ
الْاَعْلٰی
وَیُقْذَفُوْنَ
مِنْ
كُلِّ
جَانِبٍ
۟ۗۖ
دُحُوْرًا
وَّلَهُمْ
عَذَابٌ
وَّاصِبٌ
۟ۙ
اِلَّا
مَنْ
خَطِفَ
الْخَطْفَةَ
فَاَتْبَعَهٗ
شِهَابٌ
ثَاقِبٌ
۟
3

وحفظا من ۔۔۔۔ شھاب ثاقب (37: 7 – 10) اور ہر سرکش شیطان سے اس کو محفوظ کردیا ہے۔ یہ شیاطین ملاء اعلیٰ کی باتیں نہیں سن سکتے۔ ہر طرف سے مارے اور ہانکے جاتے ہیں اور ان کے لیے پیہم عذاب ہے۔ تاہم اگر کوئی ان میں سے کچھ لے آرے تو ایک تیز شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے۔

بعض سیارے ایسے ہوتے ہیں جو عالم بالا کی حفاظت کرتے ہیں۔ ان کی ڈیوٹی یہ ہوتی ہے کہ یہ عالم بالا میں جو فیصلے اس عالم کے بارے میں ہوتے ہیں ، شیاطین کو ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے سے روکتے رہیں۔ جب بھی کوئی شیطان عالم بالا سے کوئی راز چرانے کی سعی کرتا ہے تو شہاب ثاقب اس کا پیچھا کرتے ہیں۔ اور ان کو مار کا ہانک دیتے ہیں۔ ایسے شیاطین متمردین کے لیے آخرت میں ایسا عذاب ہوگا جو کبھی ختم ہونے والا نہ ہوگا۔ بعض اوقات شیاطین ، بعض معلومات لے آرتے ہیں ایسے شیاطین کا پیچھا یہ شہاب ثاقب کرتے ہیں ۔ یہ شہاب ایسے شیاطین پر لگتے ہیں اور انہیں جلا کر رکھ دیتے ہیں۔

ہم ان کیفیات کو اچھی طرح سمجھ نہیں سکتے کہ یہ شیاطین جاسوسی کا یہ عمل کس طرح کرتے ہیں اور کس طرح وہ کچھ معلومات لے اڑتے ہیں اور کس طرح انہیں شہاب ثاقب کے ذریعے بھسم کردیا جاتا ہے۔ یہ عالم غیب کی باتیں ہیں اور انسانی فہم و ادراک کی جو طبیعت ہے وہ انکے معلوم کرنے سے عاجز ہے۔ اور نہ ان کی کیفیات کا تصور کرسکتی ہے۔ ہمارا طریقہ یہی ہے کہ اللہ کی طرف سے جو کچھ آجائے ہم اس کی تصدیق کردیں۔ اس جہاں کے اندر ہم طبیعات کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں وہ سطحی علم ہے

اصل بات یہ ہے کہ یہ شیاطین جن کو عالم بالا تک پہنچنے نہیں دیا جاتا۔ اور وہاں جو کچھ ہوتا ہے اس کی طرف کان لگانے سے بھی ان کو روکا جاتا ہے۔ وہی شیاطین ہیں جن کے بارے میں عرب کے لوگوں کا دعویٰ تھا کہ ان کا اور اللہ تعالیٰ کا آپس میں رشتہ ہے (نعوذ باللہ) ۔ اگر ان لوگوں کا یہ دعویٰ درست ہوتا تو معاملہ مختلف ہوتا۔ اور یہ نہ ہوتا کہ اللہ کے رشتہ داروں کو اس طرح دھتکارا جاتا ، ہانکا جاتا اور اگر کچھ بات وہ لے اڑیں تو انہیں رجم کردیا جاتا۔ یہ رشتہ دار تو عالم بالا میں آزادانہ آتے جاتے۔

ملائکہ کے ذکر اور آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان اشیاء کے ذکر کے بعد اور ان ستاروں کے ذکر کے بعد جن سے آسمانوں کو مزین کیا گیا اور ان شیطانوں کے ذکر کے بعد جو سرکش ہیں اور جن پر شہاب ثاقب چھوڑے جاتے ہیں ، اب رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ ذرا ان لوگوں سے پوچھیں کہ وہ زیادہ طاقتور ہیں یا مذکورہ بالا ۔۔۔۔۔۔۔ طاقتور ہے اور زیادہ قوی ہے تو پھر وہ دوبارہ اٹھائے جانے کے تصور سے کیوں دہشت زدہ ہوجاتے ہیں اور مزاح کرتے ہیں۔ اور اس کے وقوع کو مستبعد سمجھتے ہیں۔ حالانکہ قیامت میں لوگوں کو دوبارہ اٹھانا اس عظیم اور ہولناک مخلوقات کی پیدائش سے زیادہ مشکل امر نہیں ہے۔

اپنے Quran.com کے تجربے کو زیادہ سے زیادہ بنائیں!
ابھی اپنا دورہ شروع کریں:

0%