آیت 101{ فَـبَشَّرْنٰــہُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ } ”تو ہم نے اسے بشارت دی ایک حلیم الطبع لڑکے کی۔“ اس سے حضرت اسماعیل علیہ السلام مراد ہیں۔ -۔ ”حلیم“ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے اور اس حوالے سے قرآن میں یہ لفظ بار بار آیا ہے۔ ویسے تو اللہ کی صفات کا کچھ نہ کچھ عکس انسانوں کے اندر بھی پایا جاتا ہے لیکن ”حلم“ اللہ کی وہ شان ہے جو انسانوں میں زیادہ عام نہیں ہے۔ لفظ ”حلیم“ غیر اللہ کے لیے قرآن میں صرف تین مرتبہ آیا ہے۔ دو مرتبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے التوبہ : 114 اور ہود : 75 اور ایک مرتبہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لیے آیت زیر مطالعہ میں۔ یہاں ایک قابل توجہ نکتہ یہ بھی ہے کہ اس آیت میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو غُلٰمٍ حَلِیْمٍ جبکہ حضرت اسحاق علیہ السلام کو سورة الحجر کی آیت 53 میں غُلٰمٍ عَلِیْمٍ کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ یعنی ایک بھائی علم میں زیادہ تھے اور ان ہی سے آگے بنی اسرائیل میں نبوت کا سلسلہ چلا اور دوسرے بھائی یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام ”حلم“ میں زیادہ تھے اور ان کی اولاد میں نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کی بعثت ہوئی۔