آپ 36:13 سے 36:14 آیات کے گروپ کی تفسیر پڑھ رہے ہیں
وَاضْرِبْ
لَهُمْ
مَّثَلًا
اَصْحٰبَ
الْقَرْیَةِ ۘ
اِذْ
جَآءَهَا
الْمُرْسَلُوْنَ
۟ۚ
اِذْ
اَرْسَلْنَاۤ
اِلَیْهِمُ
اثْنَیْنِ
فَكَذَّبُوْهُمَا
فَعَزَّزْنَا
بِثَالِثٍ
فَقَالُوْۤا
اِنَّاۤ
اِلَیْكُمْ
مُّرْسَلُوْنَ
۟
3

وحی و رسالت کے مسئلے کے اس تاکیدی بیان اور قضیہ حساب و کتاب کے اس اٹل اعلان کے بعد ، اب اسی مضمون کو قصے کی صورت میں لایا جاتا ہے۔ اس قصے میں ایمان اور کفر کے جو دو باہم متقابل موقف سامنے آتے ہیں وہ نفس انسانی پر نہایت گہرے اثرات چھوڑتے ہیں اور دونوں مواقف کا انجام بھی آنکھوں کے سامنے منقش نظر آتا ہے۔

واضرب لھم مثلا ۔۔۔۔۔۔۔ بل انتم قوم مسرفون (13 – 19) ” “۔

رسولوں نے کہا ” ہمارا رب جانتا ہے کہ ہم ضرور تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں ، اور ہم پر صاف صاف پیغام پہنچا دینے کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں ہے “۔ بستی والے کہنے لگے ” ہم تو تمہیں اپنے لیے فال بد سمجھتے ہیں۔ اگر تم باز نہ آئے تو ہم تم کو سنگسار کرسکیں گے اور ہم سے تم بڑی دردناک سزا پاؤ گے “۔ رسولوں نے جواب دیا ” تمہاری فال بد تو تمہارے اپنے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ کیا یہ باتیں تم اس لیے کرتے ہو کہ تمہیں نصیحت کی گئی ؟ اصل بات یہ ہے کہ تم حد سے گزرے ہوئے لوگ ہو “۔

قرآن کریم نے اصحاب قریہ کا نام نہیں لیا ، نہ اس گاؤں کا ۔۔۔ ہے۔ اس کے بارے میں مفسرین نے بہت سی روایات نقل کی ہیں۔ ان روایات کے پیچھے پڑنے کی یہاں ضرورت نہیں ہے۔ نہ ان پر بحث کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم کا اس شہر کا نام نہ لینا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ قصہ کے جو مقاصد ہیں ان میں اس گاؤں کا نام لینے سے کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اس شہر اور اس کے محل وقوع کا نام نہیں لیا۔ اور قصے اور اس سے حاصل ہونے والے سبق ہی پر اکتفاء کیا۔ بہرحال یہ ایک گاؤں تھا جس کی طرف دو رسول بھیجے گئے تھے۔ جس طرح حضرت موسیٰ اور ان کے بھائی حضرت ہارون (علیہما السلام) دونوں کو فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا گیا تھا۔ اس گاؤں والوں نے ان رسولوں کی تکذیب کی۔ اللہ نے ان دونوں رسولوں کی تائید میں ایک تیسرا رسول بھی بھیج دیا اور اس تیسرے نے لوگوں کو بتایا کہ یہ دونوں برحق رسول ہیں ، چناچہ ان تینوں نے ازسرنو اپنی دعوت کا آغاز کیا۔

فقالوا انا الیکم مرسلون (36: 14) ” ان سب نے کہا ہم تمہاری طرف رسول کی حیثیت سے بھیجے گئے ہیں “۔

اب اس گاؤں والوں نے ان پر وہی گھسے پٹے اعتراضات کیے جو ہمیشہ رسولوں پر ہوتے ہیں۔

قالوا ما انتم۔۔۔۔۔ الا تکذبون (36: 15) ” بستی والوں نے کہا ” تم کچھ نہیں ہو مگر ہم جیسے انسان اور خدائے رحمن نے ہرگز کوئی چیز نازل نہیں کی ہے ، تم محض جھوٹ بولتے ہو “۔ یہ اعتراضات جو تمام رسولوں پر ہوتے رہے ہیں ، ان پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ بہت ہی سادہ لوح تھے اور ان کی سوچ ناپختہ تھی۔ یہ لوگ رسول اور رسالت کے بارے میں عجیب تصورات رکھتے تھے۔ ان کے خیال میں رسول کی شخصیت ایک پر اسرار شخصیت ہونا چاہئے اور اس کی شخصیت کے ساتھ بہت سے اوہام اور قصے منسوب ہونے چائیں۔ اس لیے کہ رسول آسمان کی طرف سے زمین والوں کی طرف آتا ہے لہٰذا اس کی شخصیت کے ساتھ اوہام و اساطیر وابستہ ہونا ضروری ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہو کہ ایک رسول کھلا اور سادہ انسان ہو۔ ہماری طرح اس کی زندگی میں کوئی راز نہ ہو اور نہ کوئی عجوبہ ہو۔ ہم جیسا ایک عام اور معمولی انسان رسول کس طرح ہو سکتا ہے جو بازاروں میں پھرتا ہو اور ہمارے جیسے گھروں میں رہتا ہو۔

یہ تھی ان کے فکر اور ان کی سوچ کی سادگی۔ اس لیے کہ نبوت کے ساتھ پر اسراریت لازم نہیں ہے۔ لیکن مقام نبوت اس قدر سادہ بھی نہیں ہے جس طرح یہ لوگ سمجھے ہیں۔ منصب رسالت اور منصب نبوت میں ایک عظیم اور گہرا راز بھی پوشیدہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک عام اور سادہ انسان کے اندر ایسی استعداد پیدا کردیتا ہے کہ وہ ایک عام انسان ہونے کے باوجود باری تعالیٰ سے وحی وصول کرنے کے قابل ہوجاتا ہے ۔ اور یہ بات اس سے زیادہ تعجب خیز ہے کہ ایک رسول فرشتہ ہو جیسا کہ ان لوگوں کی تجویز تھی کہ رسول کو تو فرشتہ ہونا چاہئے۔

اصل بات یہ ہے کہ رسالت کا مقصد لوگوں کو اسلامی نظام زندگی سے روشناس کرنا ہوتا ہے اور رسول کی زندگی اس نطام کا عملی نمونہ ہوا کرتی ہے اور رسول کی دعوت ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو اس عملی نظام کے اتباع کی طرف بلاتا ہے۔ لوگ چونکہ انسان ہیں ، اس لیے ان کا مقتدا بھی انسان ہونا چاہئے تاکہ وہ ان لوگوں کے لیے عملی نمونہ پیش کرسکے۔ اور وہ اس کی تقلید کر سکیں

یہی وجہ ہے کہ ہر رسول کی زندگی لوگوں کے لیے ایک کھلی کتاب ہوا کرتی ہے۔ قرآن جو اللہ کی محکم کتاب ہے ، اس نے اس تفصیلی زندگی کے ایک معمولی اور اصولی حصے کو قلم بند کیا ، تفصیلات کے بجائے اصول لکھ دئیے ۔ باقی تفصیلی نظام زندگی رسول وقت کی عملی زندگی سے امت اخذ کرتی ہے اور وہ عملی زندگی ایک کھلی کتاب کے طور پر تمام امت کے سامنے ہوتی ہے اور کئی سالوں پر پھیلی ہوئی ہوتی ہے۔ ان تفصیلات میں رسول کی خاندانی اور گھویلو زندگی کے خدوخال اور اجتماعی زندگی کے نمونے سب موجود ہوتے ہیں۔ بعض اوقات قرآن نے تو رسول کی نفسیاتی کیفیات کو بھی قلم بند کیا ہے تاکہ آنے والی امتیں بھی دیکھیں کہ نبی امین کی قلبی کیفیت کیا تھی۔