آپ 32:4 سے 32:9 آیات کے گروپ کی تفسیر پڑھ رہے ہیں
الله الذي خلق السماوات والارض وما بينهما في ستة ايام ثم استوى على العرش ما لكم من دونه من ولي ولا شفيع افلا تتذكرون ٤ يدبر الامر من السماء الى الارض ثم يعرج اليه في يوم كان مقداره الف سنة مما تعدون ٥ ذالك عالم الغيب والشهادة العزيز الرحيم ٦ الذي احسن كل شيء خلقه وبدا خلق الانسان من طين ٧ ثم جعل نسله من سلالة من ماء مهين ٨ ثم سواه ونفخ فيه من روحه وجعل لكم السمع والابصار والافيدة قليلا ما تشكرون ٩
ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۖ مَا لَكُم مِّن دُونِهِۦ مِن وَلِىٍّۢ وَلَا شَفِيعٍ ۚ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ ٤ يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ إِلَى ٱلْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِى يَوْمٍۢ كَانَ مِقْدَارُهُۥٓ أَلْفَ سَنَةٍۢ مِّمَّا تَعُدُّونَ ٥ ذَٰلِكَ عَـٰلِمُ ٱلْغَيْبِ وَٱلشَّهَـٰدَةِ ٱلْعَزِيزُ ٱلرَّحِيمُ ٦ ٱلَّذِىٓ أَحْسَنَ كُلَّ شَىْءٍ خَلَقَهُۥ ۖ وَبَدَأَ خَلْقَ ٱلْإِنسَـٰنِ مِن طِينٍۢ ٧ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُۥ مِن سُلَـٰلَةٍۢ مِّن مَّآءٍۢ مَّهِينٍۢ ٨ ثُمَّ سَوَّىٰهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِۦ ۖ وَجَعَلَ لَكُمُ ٱلسَّمْعَ وَٱلْأَبْصَـٰرَ وَٱلْأَفْـِٔدَةَ ۚ قَلِيلًۭا مَّا تَشْكُرُونَ ٩
اَللّٰهُ
الَّذِیْ
خَلَقَ
السَّمٰوٰتِ
وَالْاَرْضَ
وَمَا
بَیْنَهُمَا
فِیْ
سِتَّةِ
اَیَّامٍ
ثُمَّ
اسْتَوٰی
عَلَی
الْعَرْشِ ؕ
مَا
لَكُمْ
مِّنْ
دُوْنِهٖ
مِنْ
وَّلِیٍّ
وَّلَا
شَفِیْعٍ ؕ
اَفَلَا
تَتَذَكَّرُوْنَ
۟
یُدَبِّرُ
الْاَمْرَ
مِنَ
السَّمَآءِ
اِلَی
الْاَرْضِ
ثُمَّ
یَعْرُجُ
اِلَیْهِ
فِیْ
یَوْمٍ
كَانَ
مِقْدَارُهٗۤ
اَلْفَ
سَنَةٍ
مِّمَّا
تَعُدُّوْنَ
۟
ذٰلِكَ
عٰلِمُ
الْغَیْبِ
وَالشَّهَادَةِ
الْعَزِیْزُ
الرَّحِیْمُ
۟ۙ
الَّذِیْۤ
اَحْسَنَ
كُلَّ
شَیْءٍ
خَلَقَهٗ
وَبَدَاَ
خَلْقَ
الْاِنْسَانِ
مِنْ
طِیْنٍ
۟ۚ
ثُمَّ
جَعَلَ
نَسْلَهٗ
مِنْ
سُلٰلَةٍ
مِّنْ
مَّآءٍ
مَّهِیْنٍ
۟ۚ
ثُمَّ
سَوّٰىهُ
وَنَفَخَ
فِیْهِ
مِنْ
رُّوْحِهٖ
وَجَعَلَ
لَكُمُ
السَّمْعَ
وَالْاَبْصَارَ
وَالْاَفْـِٕدَةَ ؕ
قَلِیْلًا
مَّا
تَشْكُرُوْنَ
۟
3

اللہ الذی خلق ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ قلیلا ما تشکرون (4 – 9)

یہ ہے اللہ۔ اور یہ ہیں اس کی الوہیت کے آثار و شواہد۔ یہ کائنات ایک کھلی کتاب ہے اور لا انتہا عالم میں اس کے شواہد ہیں جو انسان کے محدود ادراک سے وراء ہے۔ خود انسان کی پیدائش اور اس کی نشوونما کے مختلف مدارج ہیں جنہیں لوگ جانتے ہیں اور انسانی نشوونما کے ان مدارج میں جن سے انسان ابھی تک بیخبر ہے ، اس کے شواہد موجود ہیں۔

اللہ الذی ۔۔۔۔۔۔ ستۃ ایام (32: 4) ” وہ اللہ ہی ہے جس نے زمین و آسمان کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ، چھ دنوں میں پیدا کیا “۔ اور یہ چھ دن ہمارے ان دنوں سے یقیناً مختلف ہیں جنہیں ہم جانتے ہیں کیونکہ زمین کے دن تو وہ ہیں جو سورج کے سامنے زمین کی گردش محوری سے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ دن ایک شب و روز پر مشتمل ہوتا ہے اور یہ زمین اس کائنات کے اندر بہت ہی مختصر سا ٹکڑا ہے۔ ایک ذرہ ہے جس کی اس عظیم فضا میں کوئی وقعت نہیں ہے۔ ہمارے روز و شب تو زمین و آسمان کی پیدائش کے بعد پیدا ہوئے اور یہ روز و شب زمانہ کی وہ مقدار ہے جس کے مطابق ہم حساب و کتاب کرتے ہیں۔

ان چھ ایام کی حقیقت کیا ہے تو اس کا علم اللہ ہی کو ہے۔ ہمارے پاس ان دنوں کے حساب و کتاب کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ یہ اللہ کے ایام ہیں جن کے بارے میں اللہ نے فرمایا

فی یوم کان مقدارہ الف سنۃ مما تعدون (32: 5) ” اور تمہارے رب کے نزدیک ایک دن ، تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال ہے “۔ یہ چھ دن وہ چھ حالات بھی ہوسکتے ہیں جن سے زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی فضا گزری ، یہاں تک کہ وہ اپنی موجودہ حالت تک پہنچی یا یہ تخلیق کے چھ مراحل تھے یا یہ چھ زمانے تھے جن کے درمیان کے وقت کے بارے میں اللہ ہی جانتا ہے۔ بہرحال جو بھی مراد ہو ، ان سے وہ دن مراد نہیں ہیں جو ہمارے زمانے کے دن ہیں۔ بہر حال وہ ایک غیبی امر ہے اور اس کی مراد ہم متعین نہیں کرسکتے۔ مراد وہ زمانہ ہے جو تخلیق ، تقدیر میں مطابق حکمت الہیہ صرف ہوا اور اس زمانے میں اللہ نے ہر چیز کو اس کی موجودہ شکل تک پہنچایا مختلف مراحل ، ادوار سے گزار کر۔

ثم استوی علی العرش (32: 4) ” اور اس کے بعد عرش پر جلوہ فرما ہوا “۔ استواء علی العرش اشارہ ہے اس طرف کہ اللہ کے قبضہ قدرت میں تمام کائنات ہے۔ رہا یہ کہ عرش کیا ہے تو ہم اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔ انہی الفاظ پر بات کو ختم کرتے ہیں۔ بہرحال استوا علی العرش سے مراد ہے قدرت شاملہ سے۔ پھر لفظ ثم بھی ترتیب زمانی کے لیے نہیں ہے کیونکہ اللہ کے حالات بدلتے نہیں ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ پہلے اللہ کس حال میں تھا پھر کسی دوسرے حال میں ہوگیا۔ یہ معنوی ترتیب ہے کہ اللہ نے اس کائنات کو پیدا کیا اور جب سے پیدا کیا وہ اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے یعنی بالعموم یہ کہا جاتا ہے کہ پیدا پلے کیا اور قبضہ قدرت میں بعد میں ہوا اور نہ ایسا کوئی زمانہ نہ تھا کہ اللہ کے قبضہ قدرت میں نہ ہو۔ اس بےقید قبضہ قدرت کے بیان کے بعد اب لوگوں سے کہا جاتا ہے۔

ما لکم من دونہ من ولی ولا شفیع (32: 4) ” اس کی مانند نہ تمہارا کوئی حامی و مددگار ہے اور نہ کوئی اس کے آگے سفارش کرنے والا ہے “۔ کہاں اور کون سفارشی ہوسکتا ہے جبکہ اللہ سبحانہ عرش پر متمکن ہوں اور زمین و آسمان سب اللہ کے قبضہ قدرت میں ہوں اور خالق ارض و سما بھی وہی ہو۔ تو اس کے سوا کوئی حامی ہوسکتا ہے اور اس کے سوا سفارش کرنے والا کون ہو سکتا ہے اور کون سفارشی اللہ کی سلطنت سے خارج ہوسکتا ہے۔

افلا تتذکرون (32: 4) ” کیا تم ہوش میں نہیں آتے “۔ یہ حقیقت اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ اللہ کا اقرار کرو ، اور اپنا رخ اسی کی طرف کر دو ۔ تخلیق اسی کی ہے وہی مکمل اختیارات رکھتا ہے ، وہی تدبیر کرتا ہے اور امور طے کرتا ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ زمین و آسمان کے تمام امور اس کی طرف بلند ہوتے ہیں ، قیامت میں بھی تمام معاملات اس کے سامنے پیش ہوں گے اور دنیا میں بھی تمام رپورٹیں اس کی طرف پہنچتی ہیں اس طویل دن میں جس کی مقدار اس کو معلوم ہے۔

یدبر الامر ۔۔۔۔۔ مما تعدون (32: 5) ” وہ آسمان سے زمین تک دنیا کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے اور اس تدبیر کی روداد اوپر اس کے حضور جاتی ہے ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمہارے شمار سے ایک ہزار سال ہے “۔

قرآن کا انداز تعبیر اللہ کے تدبیر کائنات کے وسیع تر میدان کی خوب تصویر کشی کرتا ہے۔

من السمآء الی الارض (32: 5) ” آسمانوں سے زمین تک “۔ اس سے انسانی ذہن کے اندر بات بٹھانا مقصود ہے یعنی ان الفاظ میں جن کا تصور ذہن انسانی کرسکتا ہے تاکہ دل میں خوف خدا پیدا ہو۔ ورنہ اللہ کی تدبیر کائنات کا دائرہ زمین اور آسمان سے بہت ہی وسیع ہے۔ لیکن انسانی احساس اور شعور کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اس کائنات کے سامنے کھڑا ہے اور اپنے شعور اور مشاہدے کی حد تک اللہ کی وسعت تدبیر کا تصور کر رہا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی وسعت تدبیر ہمارے تصور اور ہمارے ان شماریات سے بھی وسیع ہے جو ہمارے استعمال میں ہیں۔

پھر اللہ کی تمام تدابیر اور اللہ کی تمام تقدیرات کی رپورٹ میں ان کے نتائج اللہ کی طرف اٹھائے جاتے ہیں اور یہ روئیدادا سے پورے عواقب و نتائج کے ساتھ ، تمام اعمال ، اموال اور افعال کے ساتھ ، اشیاء اور زندوں اور تمام مواد کائنات کے بارے میں ایک دن اٹھائی جاتی۔ اس دن کی مقدار ایک ہزار سال ہمارے شماریات کے مطابق ہے۔ غرض اس کائنات کی کوئی چیز یونہی نہیں چھوڑ دی جاتی ہے ، نہ کسی چیز کو ۔۔ پیدا کیا گیا ہے بلکہ ایک مقررہ وقت تک تمام چیزوں کی تدبیر کی گئی ہے۔ ہر شے ، ہر معاملہ ، ہر نتیجہ اور ہر واقعہ اللہ کے تحت ہے اور اس کی روئیداد اللہ کے ہاں پہنچتی ہے جس طرح وہ طلب کرتا ہے۔

ذلک علم الغیب والشھادۃ العزیز الرحیم (32: 6) ” وہی ہے ہر پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ، زبردست اور رحیم “۔ یعنی یہ آسمان اور زمین کی تخلیق اور یہ استواء علی العرش اور آسمانوں سے زمین تک تمام امور کا انتظام ۔ یہ ہے اللہ عالم الغیب اور عالم مشاہدہ کا جاننے والا ، وہی خالق ہے۔ وہ قادر مطلق ہے اور زبردست اور رحیم ہے۔ قدرت رکھنے والا ہے ، اور جو چاہے کرسکتا ہے۔ لیکن وہ اپنے برتاؤ میں مخلوقات کے ساتھ رحم کرنے والا ہے۔

الذی احسن کل شئ خلقہ (32: 7) ” جو چیز بھی اس نے بنائی خوب بنائی “۔ کیا شان ہے اللہ کی ! بیشک یہ حق ہے ، فطرت اسے دیکھ رہی ہے ، آنکھیں دیکھ رہی ہیں ، دل اسے دیکھ رہا ہے اور عقل اس کی تصدیق کر رہی ہے۔ یہ حق جو اشیاء کی شکل میں بھی ہے۔ ان کے فرائض میں بھی ہے ، ان کی طبیعت اور ان کی ہم آہنگی میں بھی ہے۔ ان کی ہیئت میں بھی ہے اور ان کی شکل میں بھی ہے۔ بہرحال جو چیز بھی حسن اور احسان سے متعلق ہے وہ اس مخلوقات میں موجود ہے۔

سبحان اللہ ! یہ ہے اللہ کی کاریگری تمام اشیائ میں۔ اس کے دست قدرت کے کمالات تمام اشیاء میں موجود ہیں۔ جو چیز بھی اللہ نے بنائی ہے وہ حسین اور مکمل ہے۔ نہ حد سے آگے ہے اور نہ اس میں کوئی قصور ہے۔ حسن سے زیادہ نہ کم۔ نہ افراط ہے نہ تفریط۔ حجم کے اعتبار سے ، شکل کے لحاظ سے اور مقاصد اور مفاد کے زاویہ سے۔ ہر چیز ایک متعین قدر کے ساتھ ہے۔ نہ حد حسن و جمال سے کم یا زیادہ ہے۔ اپنے وقت سے نہ پہلے آتی ہے ، نہ بعد میں۔ نہ اپنی حد سے آگے بڑھتی ہے اور نہ پیچھے رہتی ہے۔ ذرے سے کے کر بڑے سے بڑے اجسام تک میں حسن ملحوظ ہے۔ سادہ خلیے سے لے کر پیچیدہ ترین ذی حیات اشیاء تک ہر چیز حسین اور موزوں ہے۔ اسی طرح ، اعمال ، اطوار ، واقعات اور حرکات سب کے سب مقدر ہیں۔ سب اللہ کی تخلیق ہیں اور ہر واقعہ اور ہر حادثہ اپنے مقرر معیار کے مطابق ہوتا ہے اور اس کے مقررہ اثرات مرتب ہوتے ہیں ، اور یہ اس منصوبے اور نقشے کے مطابق ہوتا ہے جو ازل میں اللہ نے تیار کیا ہے اور ابد تک ایسا ہی تدبیر الٰہی کے مطابق ہوتا رہے گا۔

ہر چیز اور ہر مخلوق اس لیے بنائی گئی ہے کہ وہ اپنا مقرر اور متعین فریضہ ادا کرے اور اس فریضے کا تعین نہایت دقیق وزن کے ساتھ کردیا گیا ہے۔ اس چیز کے تمام فرائض اس کے اندر رکھ دئیے گئے ہیں اور ان خواص کی وجہ سے وہ اپنا فریضہ منصبی پورا کرتی ہے اور اس کے لیے پوری طرح اہل ہے۔ یہ خلیہ جو متعدد مقاصد کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ کیڑا رینگ رہا ہے اور جس کے پاؤں اور بال و پر ہیں۔ یہ اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ اس زمین پر اپنے لیے راستہ نکالے۔ یہ اپنا کام احسن طریقے سے کرتا ہے۔ یہ پرندہ ، یہ حیوان ، اور یہ انسان ، یہ کواکب ، یہ ستارے ، یہ سیارے ، یہ افلاک اور جہاں اور یہ جہانوں کے جہاں ، یہ کر ات اور ان کے دورے اور گردشیں ، متعین اور مقرر ، عجیب اور مضبوط اور نہایت ہی وقت کے ساتھ متعین وقت کے حامل۔ دائمی طور پر متحرک۔ غرض اس کائنات کی جس چیز کو دیکھو چھوٹی یا بڑی ہر چیز حسین و جمیل ہے۔ اس کے حسن و جمال میں اضافہ نہیں کیا جاسکتا۔ ہر کھلی آنکھ ، ہر حساس انسان ، اور ہر صاحب بصیرت شخص اس حسن اور احسان کو دیکھ سکتا ہے جو اس کائنات کی مجموعی شکل میں بھی ہے اور اس کی ایک ایک چیز میں بھی ہے۔ جب قلب و نظر اور ذہن و خیال متوجہ ہوں تو انسان اس جہان میں حسن و جمال اور صفت و کمال کے بڑے بڑے ذخائر دریافت کرسکتا ہے۔ اس حسن و جمال اور اس تدبر و کمال کے نریجے میں ہر طرف سے انسان کے لیے خیر اور برکات جمع ہوتے ہیں۔ مثلاً نہایت ہی خوشگوار پھل اور وہ روحانی ذوق و شوق جس سے کاسہ دل بھی جاتا ہے اور اس طرح انسان اس ربانی میلے میں اور اس خدائی جشن میں جدھر دیکھے ، حسن و جمال ہی نظر آئے۔ جس چیز کا مطالعہ کرے وہ بدیع الجمال اور انتہائے کمال پر نظر آئے۔ اس طرح اس جہان فانی کے زائل ہونے والے اس حسن و جمال سے آگے بڑھ کر عالم آخرت کے دائمی حسن و جمال اور لازوال کمال تک پہنچ سکتا ہے جو صفت الٰہی میں ہے اور جس کا تصور بھی کسی دل میں نہیں آیا۔

انسان ان انعامات اور حسن و جمال اور وقت و کمال کو اس وقت دیکھ سکتا ہے جب انسان ایک عادی اور معمولی اور روٹین کے مناظر کو ذرا آنکھیں کھول کر دیکھے۔ یہ اس وقت ہی اسے پا سکتا ہے جب وہ اپنے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات کی گھنٹیوں کو سنے۔ فطرت کے اشارات کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ جب وہ اس جہاں کو نور ربانی کے ساتھ دیکھے۔ جب وہ ان کو ربانی نور کے ساتھ دیکھے گا تو پھر اس کو معلوم ہوگا کہ ہر چیز کے اندر کیسا حسن و جمال ہے اور ہر چیز کی صنفت میں انوکھا پن کیا ہے اور یہ حسن اسے اس وقت نظر آئے گا جب وہ ہر حسین چیز کو دیکھ کر اللہ کو یاد کرے اور سبحان اللہ کہے۔ یوں اس کا تعلق خالق کائنات سے پیدا ہوگا۔ یوں اس کا شعور جمال تک پہنچ جائے گا کیونکہ مخلوقات کے کمال و جمال سے انسان اللہ کے کمال و جمال تک پہنچ سکتا ہے۔

یہ کائنات جمیل ہے اور اس کا جمال ختم نہیں ہوت اور انسان اس جمال کے ادراک میں روز بروز ترقی کرتا ہے۔ اس سے فائدہ اٹھاتا ہے اور اس کا یہ فائدہ غیر محدود ہے۔ وہ جس قدر چاہے اس فائدے کو آگے بڑھا سکتا ہے۔ جہاں تک بدیع السموات انسان کے لیے مقدر کرتا ہے اور موقع دیتا ہے۔

پھر اس مخلوق میں خوبصورتی کا عنصر مقصود بالذات ہے۔ اللہ نے ہر چیز کو خوبصورت بنایا ہے کیونکہ جب کسی بنائی ہوئی چیز کو خوبصور اور اچھا بتایا جاتا ہے تو وہ اپنا فرض منصبی یا ڈیوٹی بہت اچھی طرح ادا کرتی ہے۔ یوں مصنوعات کی عمدگی کو بڑھا کر کمال تک پہنچایا جاتا ہے جبکہ اس کائنات کی خوبصورتی اس کے ہر جزء سے ظاہر ہے اور مخلوقات کی ہر قسم سے عیاں ہے۔ ذرا اس کھجور کو دیکھئے ذرا کسی ایک پھول کو دیکھئے ، ذرا ایک چھوٹے سے چھوٹے ستارے کو دیکھئے ، ذرا رات کو دیکھئے اور پھر دن کو دیکھئے ، چھاؤں اور بادلوں کو دیکھئے ، اس پورے وجود کے اندر جاری وساری نغمہ سرائی کو دیکھئے اور غایت درجہ کی ہم آہنگی ، ہمداری اور حرکت کو دیکھئے۔ فتبارک اللہ احسن الخالقین۔

یہ ایک سیاحت ہے اور اس خوبصورت وجود اور نہایت ہی خوبصورت اور انوکھی کائنات میں ایک تفریح ہے اور مخلوقات کا مطالعاتی سفر ہے۔ قرآن کریم ہماری توجہ اس طرف مبذول کراتا ہے اور ہدایت کرتا ہے کہ اس سے لطف اٹھاؤ۔

الذی احسن کل شئ خلقہ (32: 7) ” جس نے ہر چیز کو خوبصورت تخلیق بخشی “۔ اس ہدایت سے انسان اس کائنات میں حسن و جمال کے نکات تلاش کرتا ہے۔ اور لطف اٹھاتا ہے۔

وبدا خلق الانسان من طین (32: 7) ” اس نے انسان کی تخلیق کی ابتدا گارے سے کی “۔ اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اس نے انسان کی تخلیق گارے سے کی۔ انداز تعبیر سے یوں سمجھ میں آتا ہے کہ انسان کا آغاز گارے سے تھا۔ یعنی انسان کی ابتدائی شکل مٹی کے گارے کی سی تھے۔ اللہ نے یہ نہیں بتایا کہ گارے سے انسان تک کتنے مراحل سے انسان گزرا یاکتنا زمانہ اس میں لگا۔ اس معاملے میں قیاس آرائی کی جاسکتی ہے۔ خصوصاً جب ہم اس آیت کو سورة المومنون کی آیت سے ملا کر پڑھیں۔

خلق الانسان من سلالۃ من طین ” انسان کو مٹی کے ست سے پیدا کیا گیا “۔ لہٰذا یہ کہنا ممکن ہے کہ انسان کی تخلیق ایسے مراحل سے گزری ہے جس کا اصل مٹی تک جا پہنچتا ہے۔ اس سے مراد وہ خلیہ بھی ہو سکتا ہے جو اس زمین میں پیدا کیا گیا اور یہ خلیہ مٹی سے پیدا کیا گیا تھا۔ اور نفخ حیات اور نفخ روح سے وہ خالق مٹی تھا اور یہی وہ راز ہے جس تک آج تک انسان نہیں پہنچ سکا۔ نہ انسان یہ معلوم کرسکا ہے کہ یہ زندگی کیا ہے اور نہ یہ معلوم کرسکا ہے کہ اس خلیے میں روح کیسے داخل ہوئی اور اس خلیے سے بھی انسان کیسے پیدا کیا گیا۔ قرآن کریم نے اس کا تذکرہ نہیں کیا کہ یہ پورا عمل کیسے انجام تک پہنچا اور نہ یہ بتایا ہے کہ اس پر کس قدر وقت لگا۔ اس تحقیق کیلئے اللہ نے انسان کو آزاد چھوڑ دیا ہے کہ جس طرح چاہے فیصلہ کرے اور اس قسم کی تحقیقات نص قرآن کے خلاف نہیں ہیں۔ نص قرآنی میں صرف یہ ہے کہ انسان کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے یا مٹی کے ست سے ہوئی ہے۔ یہ ہے وہ موقف جس میں قرآن مجید جو قاطع ہے اپنی جگہ رہتا ہے۔ اور سائنسی تحقیقات بھی اپنے مقام پر رہتی ہیں۔

یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ صراحت کردی جائے کہ ڈارون کا نظریہ ارتقا کہ تمام حیوانات ایک ہی خلیے سے ارتقاء کرکے مختلف انواع کی شکل اختیار کر گئے ہیں اور خود انسان بھی بند کی ترقی یافتہ شکل ہے اور یہ کہ انسان اور اعلیٰ قسم کے بندر کے درمیان ارتقائی مراحل کے انواع موجود رہے ہیں۔ یہ نظریہ بالکل غلط ہے۔ نیز ڈارون کو وراثتی خصوصیات (جینز) کا علم ہی نہ تھا۔ لیکن جینز کی دریافت کے بعد تو یہ طے ہوگیا ہے کہ ایک نوع کا دوسرے نوع میں منتقل ہونا محال ہوگیا ہے۔ ہر خلیے یعنی نوع حیوان کے خلیے کے اندر جینز ہیں جو اسے اپنی نوع بدلنے کی اجازت ہی نہیں دیتے۔ یہ جینز اپنی صورت نوعیہ کی پوری طرح حفاظت کرتے ہیں ۔ لہٰذا بلی جس خلیے سے پیدا کی گئی وہ بلی ہی رہی ہے اور اس کی صورت نوعیہ میں کسی مرحلے پر کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ کتا ، کتا رہا ہے ، بیل ، بیل رہا ہے ، گھوڑا ہمیشہ گھوڑا رہا ہے ، بندر ہمیشہ بندر رہا ہے اور انسان ہمیشہ انسان رہا ہے۔ جو چیز ممکن ہے وہ یہ ہے کہ ایک نوع اپنی حدود کے اندر ترقی کرے یا زوال پذیر ہو۔ بہرحال ممکن ہے کہ ایک نوع اپنی حدود کو کر اس کرکے دوسری نوع میں داخل ہوجائے۔ یہ وہ بات ہے جو ڈارون کے نظریہ کی حقیقت ہی باطل کر رہی ہے۔ بہرحال یہ لوگ سائنس کے نام پر خود اپنے نظریات گھڑتے ہیں ، ان پر یقین کرتے ہیں لیکن یہ نظریات کسی دن جا کر باطل ہوجاتے ہیں۔

ثم جعل نسلہ من سللۃ من مآء مھین (32: 8) ” پھر اس کی نسل ایک ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح کا ہے یعنی نطفے کے پانی سے جو جنین کے ارتقاء کی پہلی شکل ہے کہ وہ ایک نقطے سے ایک لوتھڑا بن جاتا ہے۔ پھر وہ گوشت کی بوٹی بن جاتا ہے۔ پھر اس کے اندر ہڈیاں پیدا ہوتی ہیں۔ پھر وہ مکمل جنین بن جاتا ہے۔ یہ پانی کا ست اور اس کا ارتقاء ہے۔ یہ نقطہ جو اس حقیر پانی میں ہوتا ، جس طرح یہ ارتقائی مراحل طے کرتا ہے اور جس طرح آج کل ایک وجیب جہان ہے اور اس حقیر پانی کے ست میں ایک دوسرے نقطے کو دیکھو اور پھر اس مکمل انسان کو دیکھو کہاں سے کہاں تک آگیا اور کیا سے کیا کچھ بن گیا۔ قرآن کریم اس عظیم تغیر و ارتقاء کو اس طرح ایک ہی آیت میں بیان کردیتا ہے۔

ثم سوہ ونفخ فیہ ۔۔۔۔۔۔ والابصار والافئدۃ (32: 9) ” پھر اس نے اس کو نک سک سے درست کیا اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی اور تم کو کون دئیے ، آنکھیں دیں اور دل دئیے “۔ سبحان اللہ یہ کس قدر عظیم ارتقائی سفر ہے انسان کا۔ کن کن مشکل حالات سے یہ انسان گزرا ہے۔ کس قدر عظیم معجزہ ہے خود انسان کی تخلیق لیکن لوگ اس سے غافل ہیں۔ انسان کو دیکھو اور اس معتبر نطفے کے پانی کے اندر اس نکتے کو دیکھو۔ اگر دست قدرت اس معجزانہ عمل کو تکمیل تک نہ پہنچائے۔ یہ دست قدرت ہی ہے جو اس نہایت ہی چھوٹے نکتے کو ہدایت کرتی ہے کہ وہ ان دشوار گزار مراحل اور راستوں سے گزر کر انسان کی شکل اختیار کرلے۔ اس چھوٹے سے نقطے اور اس خلیے کے اندر کس قدر تقسیم ہوتی ہے اور کس قدر کثرت ہوتی ہے۔ یہ بڑھتا بھی جاتا ہے اور تقسیم بھی ہوتا جاتا ہے۔ اس سے مزید مختلف قسم کے خلیے بنتے جاتے ہیں۔ یہ خلیے پھر باہم متضاد ہوتے ہیں ۔ یہ بڑھتے جاتے ہیں۔ پھر اس انسان کے ہر ہر عضو کے اپنے خلیے ہوتے ہیں ، جن کی مخصوص نوعیت ہوتی ہے اور ان کے پھر مزید اجزاء ہوتے ہیں اور ہر جزء کا اپنا وظیفہ ہوتا ہے۔ ایک ہی عضو کے اندر کئی قسم کے خلیے بنتے چلے جاتے ہیں۔ یہ پہلا خلیہ کس طرح اس قدرو کثرت میں آجاتا ہے ، پھر اس کے اندر نوعیت کے اعتبار سے یہ تقسیم کس طرح ہوجاتی ہے ، پھر اس ایک ہی ابتدائی نکتے اور خلیے سے خلیات کا عظیم مجموعہ کس طرح بن جاتا ہے۔ پھر ان خلیات کے اندر انسان خصوصیات کہاں چھپی تھیں۔ پھر یہ جنین کے اندر مخصوص صلاحیتیں کہاں سے آجاتی ہیں۔ ہر خلیے کے لیے متعین فریضہ کس طرح قائم ہوجاتا ہے۔ اور ہر ایک کی خصوصیات دوسرے سے جدا کس طرح ہوجاتی ہیں۔ کون ہے جو اس قسم کے معجزے کے صادر ہونے کا یقین کرتا اگر عملاً یہ معجزہ روز ہمارے سامنے وجود میں نہ آتا۔

یہ اللہ کا دست قدرت ہی ہے جس نے انسان کو اس طرح برابر کیا اور درست کیا اور پھر یہ اللہ کی جانب سے انسان کے اندر روح پھونکنے کا عمل ہے جو انسان کو انسان بنا دیتا ہے۔ یہی ایک معقول تشریح ہے اس معجزے کی جو ہر سکینڈ میں واقع ہو رہا ہے۔ لیکن لوگ ہیں کہ اسے غافل ہیں۔ یہ اللہ کا نفخ روح ہے جس کی وجہ سے انسان انسان بن جاتا ہے۔ اس کے اندر سننے اور سیکھنے کی قوت آجاتی ہے اور اس سمع و بصر ہی کی وجہ سے تمام عضویاتی حیوانات سے انسان مختلف اور ممتاز ہوتا ہے۔

وجعل لکم السمع والابصار والافئدۃ (32: 9) ” تم کو کان دئیے ، آنکھیں دیں اور دل دئیے “۔ یہ وہ معجزہ ہے جو ہمارے سامنے ہر سیکنڈ میں رونما ہوتا ہے۔ اس کی تشریح اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ اللہ کی جانب سے نفخ روح ہے ورنہ عقل انسانی اس اتھاہ سمندر میں غوطے کھاتی رہتی اور قیامت تک وہ اس کی تشریح نہ کرسکتی ۔ اس کے علاوہ یہ اللہ کے فضل و کرم کا فیضان ہے اور یہ اللہ کا فضل ہی ہے جو اس حقیر پانی کے ایک نکتے سے انسان بنا دیتا ہے۔ پھر وہ اللہ ہی ہے جو اس ایک حقیر خلیے کے اندر ارتقاء اور نمو کی وہ خصوصیات رکھ دیتا ہے کہ وہ ، تبدیلیوں سے ہوتے ہوئے اور اپنے اندر مزید خصوصیات لیتے ہوئے انسان کی شکل میں پہنچ گیا۔ جس کے اندر ایسی خصوصیات پیدا ہوگئیں کہ انسان تمام دوسرے حیوانات میں ممتاز ہوگیا۔ لوگ ہیں کہ اللہ کے اس فضل و کرم کا کوئی شکر ادا نہیں کرتے۔ قلیلا ما تشکرون (32: 9)

انسان کی پیدائش ، اس کے مختلف مراحل اور ان سے اس کا عجیب انداز سے گزرنا اور ہر وقت اس عظیم معجزے کا صادر ہونا اور اس معجزے کا ہمارے سامنے بار بار دہرایا جانا ، ان امور کی روشنی میں یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ یہ انسان جب مر کر پھر مٹی بن گیا اور زمین کی دوسری مٹی میں مل گیا تو حشر و نشر کیسے ہوگا۔ اس بیان کے بعد یہ شک اور یہ اغراض بجائے خود عجیب اور احمقانہ نظر آتے ہیں۔