آپ 31:34 سے 32:2 آیات کے گروپ کی تفسیر پڑھ رہے ہیں
اِنَّ
اللّٰهَ
عِنْدَهٗ
عِلْمُ
السَّاعَةِ ۚ
وَیُنَزِّلُ
الْغَیْثَ ۚ
وَیَعْلَمُ
مَا
فِی
الْاَرْحَامِ ؕ
وَمَا
تَدْرِیْ
نَفْسٌ
مَّاذَا
تَكْسِبُ
غَدًا ؕ
وَمَا
تَدْرِیْ
نَفْسٌ
بِاَیِّ
اَرْضٍ
تَمُوْتُ ؕ
اِنَّ
اللّٰهَ
عَلِیْمٌ
خَبِیْرٌ
۟۠
الٓمّٓ
۟ۚ
تَنْزِیْلُ
الْكِتٰبِ
لَا
رَیْبَ
فِیْهِ
مِنْ
رَّبِّ
الْعٰلَمِیْنَ
۟ؕ
3

آیت 34 اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ ج ”اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ گھڑی کب آئے گی۔ عام طور پر ہم ”قیامت“ اور ”السّاعۃ“ کے الفاظ کو ایک دوسرے کی جگہ استعمال کرتے ہیں اور انہیں باہم مترادف الفاظ سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ ان دونوں میں سے ہر لفظ کا اپنا الگ مفہوم ہے۔ ”السَّاعۃ“ کے معنی مخصوص گھڑی کے ہیں اور قرآنی اصطلاح کے مطابق ”السَّاعۃ“ وہ معینّ گھڑی ہے جب پوری زمین زلزلے سے جھنجھوڑ ڈالی جائے گی ‘ اجرام سماویہ ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں گے اور پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں گے۔ مثلاً سورة القارعہ میں ”السَّاعۃ“ کا نقشہ اس طرح کھینچا گیا ہے : اَلْقَارِعَۃُ مَا الْقَارِعَۃُ۔ وَمَآ اَدْرٰٹکَ مَا الْقَارِعَۃُ۔ یَوْمَ یَکُوْنُ النَّاسُ کَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِ۔ وَتَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِہْنِ الْمَنْفُوْشِ ”وہ کھڑ کھڑانے والی ! کیا ہے وہ کھڑکھڑانے والی ؟ اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ کھڑکھڑانے والی ! جب لوگ ایسے ہوں گے جیسے بکھرے ہوئے پتنگے۔ اور پہاڑ ایسے ہوجائیں گے جیسے دھنکی ہوئی روئی۔“ اسی طرح لفظ ”قیامت“ کا جائزہ لیں تو اس کے لغوی معنی قیام کرنے اور کھڑے ہونے کے ہیں اور اس سے وہ وقت یا وہ دن مراد ہے جب تمام لوگ دوبارہ زندہ ہو کر اللہ کے حضور کھڑے ہوں گے۔ وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌم بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ط ”اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک آدمی ساری عمر ایک جگہ مقیم رہا ‘ مگر کبھی اچانک وہ کسی دوسرے ملک گیا اور وہاں اس کی موت واقع ہوگئی ‘ جبکہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اسے موت اس دیار غیر میں آئے گی۔اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ ”اس آیت کے حوالے سے کچھ لوگ خواہ مخواہ اشکال پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے اس کا مفہوم اچھی طرح سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں پہلا نکتہ یہ نوٹ کرلیں کہ جن پانچ چیزوں کا ذکر اس آیت میں ہوا ہے ان میں سے پہلی اور آخری دو یعنی کل تین چیزیں ایسی ہیں جن کے ذکر میں ”حصر“ کا اسلوب ہے ‘ یعنی ان میں دو ٹوک نفی categorical denial موجود ہے کہ ان چیزوں کا علم صرف اللہ کو ہے ‘ اس کے سوا کوئی دوسرا ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ یہ تین چیزیں ہیں : 1 عِلم السَّاعۃ ‘ 2 اس چیز کا علم کہ کل کوئی کیا کرے گا ‘ اور 3 کسی کو اپنی موت کی جگہ کا علم ہونا۔ جبکہ باقی دو چیزوں دوسری اور تیسری کے ذکر میں ”حصر“ کا اسلوب نہیں ہے۔ یعنی ان کا ذکر کرتے ہوئے کسی دوسرے کے علم کی نفی نہیں کی گئی۔ بلکہ بارش کے حوالے سے تو یہاں اللہ کی قدرت کا ذکر ہوا ہے ‘ نہ کہ اس کے علم کا ‘ کہ اللہ بارش برساتا ہے۔ اس سلسلے کے دوسرے فرمان وَیَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ میں بھی اللہ کے علم کا ذکر ہے کہ وہ جانتا ہے جو کچھ رحموں کے اندر ہے ‘ اور یہاں بھی ”حصر“ کا اسلوب نہیں ہے۔ یعنی کسی دوسرے کے علم کی یہاں بھی نفی نہیں کی گئی۔ چناچہ قرآن کے ان الفاظ میں نہ تو کوئی اشکال ہے اور نہ ہی کسی اعتراض کی کوئی گنجائش موجود ہے۔ البتہ بعض لوگ اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں جو اس آیت کی وضاحت میں وارد ہوئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رض سے مروی متفق علیہ ”حدیث جبریل“ میں مذکور ہے کہ نووارد شخص جو دراصل حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے نے رسول اللہ ﷺ سے ایمان ‘ اسلام اور احسان کے بارے میں سوالات کرنے کے بعد دریافت کیا : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ مَتَی السَّاعَۃُ ؟ ”اے اللہ کے رسول ﷺ ! قیامت کب آئے گی ؟“ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مَا الْمَسْءُوْلُ عَنْھَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّاءِلِ ! ”جس سے پوچھا جا رہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا !“۔۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے قیامت کی چند علامات بیان فرمائیں اور پھر ارشاد فرمایا : فِیْ خَمْسٍ لَا یَعْلَمُھُنَّ اِلَّا اللّٰہُ ”پانچ چیزوں کے بارے میں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا“۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِج وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَج وَیَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِط وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًاط وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌم بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُط اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ 1اس حدیث کے حوالے سے عام طور یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ آج کل ماں کے پیٹ کے اندر بچے کی جنس کے بارے میں معلوم کیا جاسکتا ہے ‘ لہٰذا یہ دعویٰ درست نہیں کہ اس کے بارے میں اللہ کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا۔ لیکن غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ اعتراض بھی درست نہیں۔ کیونکہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے ؟ اب تک انسان اس کے صرف ایک پہلو یعنی بچے کی جنس لڑکا یا لڑکی کے بارے میں ہی معلوم کرسکا ہے ‘ جبکہ اس کے بہت سے دوسرے پہلوؤں کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جان سکتا۔ مثلاً ماں کے پیٹ میں موجود بچے کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں ہوسکتا کہ وہ بچہ کن صلاحیتوں کا مالک ہوگا ؟ ذہین و فطین ہوگا یا کند ذہن ‘ نیکو کار ہوگا یا بدکار۔ اسی طرح بارش کے بارے میں محکمہ موسمیات کی پیشین گوئیوں کی حقیقت ظن وتخمین سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی۔ چناچہ اس توجیہہ کی موجودگی میں حدیث کے الفاظ پر بھی اعتراض کی گنجائش نہیں رہتی۔