وَمِنْ
حَیْثُ
خَرَجْتَ
فَوَلِّ
وَجْهَكَ
شَطْرَ
الْمَسْجِدِ
الْحَرَامِ ؕ
وَحَیْثُ
مَا
كُنْتُمْ
فَوَلُّوْا
وُجُوْهَكُمْ
شَطْرَهٗ ۙ
لِئَلَّا
یَكُوْنَ
لِلنَّاسِ
عَلَیْكُمْ
حُجَّةٌ ۙۗ
اِلَّا
الَّذِیْنَ
ظَلَمُوْا
مِنْهُمْ ۗ
فَلَا
تَخْشَوْهُمْ
وَاخْشَوْنِیْ ۗ
وَلِاُتِمَّ
نِعْمَتِیْ
عَلَیْكُمْ
وَلَعَلَّكُمْ
تَهْتَدُوْنَ
۟ۙۛ
3

تیسری مرتبہ پھر بالکل ایک جدید غرض کی خاطر ، قبلہ کے معاملے میں تاکید کی جاتی ہے ۔ مسلمان یہودیوں کے قبلے کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے اور یہودی اور دوسرے لوگ اس پر استدلال کرتے تھے کہ ان کا دین مسلمانوں کے دین سے زیادہ افضل ہے ۔ کیونکہ ان کا قبلہ اصل ہے ، لہٰذا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا نظام زندگی بھی اصل ہے ۔ اس لئے تحویل قبلہ کے حکم کی تاکید مزید کرکے اس استدلال کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کردیا گیا ۔ (دوسری طرف مشرکین عرب بیت الحرام کو ایک مقدس مقام سمجھتے تھے اور اس کا بےحد احترام کرتے تھے ۔ وہ بھی بیت المقدس کے قبلہ ہونے پر یوں اعتراض کرتے تھے کہ مسلمان تو یہودیوں کے تابع ہیں ۔ انہوں نے اپنے مقدس مقام کو چھوڑ دیا ہے اور بنی اسرائیل کے قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے ہیں۔

وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُمَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلأتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ” اور جہاں بھی تمہارا گزر ہو ، اپنا رخ مسجد حرام کی طرف پھیرا کرو اور جہاں بھی تم ہو ، اسی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھو تاکہ لوگوں کو تمہارے خلاف کوئی حجت نہ ملے ۔ ہاں جو ظالم ہیں ان کی زبان کسی حال میں بھی بند نہ ہوگی ۔ تو ان سے تم نہ ڈرو ، بلکہ مجھ سے ڈرو ، اور اس لئے کہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کردوں ۔ اس توقع پر کہ تم یہ ہدایت و فلاح کا راستہ پالو۔ “

رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ تمہارا گزر جہاں سے بھی ہو ، مسجد حرام کی طرف رخ کرکے نماز پڑھیں ۔ اور مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جہاں بھی وہ ہوں اپنا منہ بیت اللہ کی طرف پھیر کر نماز پڑھاکریں۔

ارشاد ہوا ! لِئَلا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ” تاکہ لوگوں کو تمہارے خلاف حجت نہ ملے ۔ “ ظالم اپنی بات کرتے ہی رہیں گے ۔ وہ کسی حجت اور کسی دلیل کے آگے نہیں جھکتے ۔ ہدایت ہوتی ہے کہ ایسے لوگوں کو نظرانداز کردیا جائے ۔ یہ لوگ کٹ حجتی کرتے ہیں اور عناد میں مبتلا ہیں ۔ ایسے لوگوں کو کسی بھی طرح مطمئن نہیں کیا جاسکتا ۔ وہ اپنی حجت بازی جاری رکھیں گے ۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي ” ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو “

ان کو تم پر کوئی اختیار حاصل نہیں ہے ۔ تمہاری زمام کار ان کے ہاتھ میں نہیں ہے ۔ یہ بات تمہارے شایان شان نہیں ہے کہ تم ان سے ڈر کر ان احکام کو ترک کردو ، جو میری جانب سے تم پر نازل ہوئے ۔ ڈر اور خشیت کے لائق تو میں ہوں ۔ اس لئے کہ تمہاری دنیا وآخرت کے تمام امور میرے ہاتھ میں ہیں ۔

ظالموں کو نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ مسلمانوں کو اللہ کی پکڑ سے ڈرایا جاتا ہے اور مسلمانوں کو اللہ کے انعام واکرام یاد دلائے جاتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ اگر تم نے اپنا رویہ درست رکھا اور احکام خداوند کی اطاعت کی تو نتیجہ یہ ہوگا کہ مزید انعامات کی بارش ہوگی : وَلأتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ” اس لئے کہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کردوں اس توقع پر کہ تم راہ ہدایت پالو۔ “

غرض یہ ایک یاد دہانی ہے جس میں ایک خاص اشارہ ہے ، ایک بڑھتی ہوئی حوصلہ افزائی ہے ، اور بار بار اللہ کے فضل وکرم کی طرف اشارہ ہے ۔

وہ کیا انعام ہے ؟ وہ تو ان کے ہاتھوں میں ہے ، خود ان کے دل و دماغ گواہ ہیں کہ وہ کیا ہے ؟ ان کی پوری زندگی میں موجود ہے ۔ وہ اپنے موقف اور اپنے معاشرہ میں اسے پاتے ہیں ۔ اس کائنات میں انہوں نے جو مقام اپنے لئے متعین کیا ہے اس میں بھی وہ اس نعمت کو پاتے ہیں ۔

وہ جاہلیت کی جہالتوں اور تاریکیوں میں زندگی بسر کرچکے تھے ۔ وہ اپنی آنکھوں سے جاہلیت کی تاریکیوں کو دیکھ چکے تھے ۔ اس کے بعد انہوں نے خود نور ایمان کو اختیار کیا ۔ پاکیزگی اور طہارت کو اختیار کیا اور علم ومعرفت کو اختیار کیا ۔ اس لئے وہ اپنے دل و دماغ میں اس نعمت کا اثر ہر وقت تروتازہ ، گہرا اور واضح پاتے ہیں ۔

وہ کوتاہ اندیشانہ قبائلی زندگی بسر کرچکے تھے ، گھٹیا مقاصد کے لئے سالہا سال کشت وخون کرتے رہتے تھے ۔ پھر وہ اپنی خوشی سے ایک نظریہ حیات کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے ، ایک قوت اور شوکت بن گئے ۔ ان کے مقاصد بلند ہوگئے اور ترجیحات وسیع ہوگئیں ۔ ان کا نقطہ نظر خاندانوں اور قبائل کے محدود دائرے سے بلند ہو کر تمام بشریت کی بنیادوں پر استوار ہوگیا ۔ اور اس نے وسعت اختیار کرلی ۔ اس لئے وہ اپنے اندر اور اپنے ماحول میں انعامات الٰہیہ کا وسیع شعور رکھتے ہیں ۔

اسلام سے پہلے وہ کس مقام پر کھڑے تھے ؟ گراپڑا غلیظ معاشرہ ، افکار پریشان اور زندگی کی اقدار مضطرب ، یعنی جاہلی معاشرہ کے مقابلے میں ۔ انہوں نے خوب سوچ سمجھ کر اسلام کا پاک اور بلند معاشرہ اپنایا ، جس کے نظریات اور عقائد شیشے کی طرح صاف تھے ، جس کی اقدار متوازن تھیں ۔ اس لئے اسلام ان کے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ تھا ۔ وہ اپنے مقام کو دیکھ کر محسوس کرتے تھے کہ سرتاپا اسلام کے انعامات وبرکات میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔

اس لئے اللہ کا فرمان وَلأتِمَّ نِعْمَتِي ” اس لئے کہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کردوں “ تو اللہ کی طرف سے ، اس فقرے میں دراصل ایک خفیہ اشارہ ہے ، ایک قسم کی حوصلہ افزائی تھی اور ہے ، ان انعامات واکرامات کی طرف جس کا احساس خود مسلمانوں کو تھا۔

یہاں تحویل قبلہ کے حکم میں تکرار سے کام لیا گیا ہے ۔ لیکن اس تکرار میں ہر مرتبہ ایک نیا مفہوم دیا گیا ہے ۔ پہلی مرتبہ کہا گیا کہ رسول ﷺ چونکہ تحویل قبلہ کی خواہش رکھتے تھے ۔ اس خواہش کا انداز بیان باادب خموشی تھا۔ آپ بار بار آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھتے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے تحویل قبلہ منظور فرمالیا۔ دوسری مرتبہ کہا گیا کہ اگرچہ رسول ﷺ کی طلب اور خواہش بھی تھی ، لیکن حکم اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے اور عین حق ہے ۔ تیسری مرتبہ جو حکم دیا گیا اس میں مسلمانوں کو بتایا گیا کہ تحویل قبلہ کی حکمت کیا ہے ؟ یہ کہ دشمنان اسلام اس سے اپنے دین کی برتری کے لئے استدلال کرتے تھے اور اس لئے حکم تحویل صادر ہوا ۔ اس لئے مقصد یہ تھا کہ جو لوگ حق کا ساتھ نہیں دیتے ، براہین و دلائل کو تسلیم نہیں کرتے ، وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کی کوئی عزت نہ ہو اور وہ ہر معاملے میں ہلکے ہوں۔

ان وجوہ کے ساتھ ، اس وقت مدینہ طیبہ میں اس نوخیز اسلامی تحریک کی صفوں میں ، ایسے حالات پائے جاتے تھے ، جو اس تکرار وتاکید اور استدلال وبیان کے متقاضی تھے۔ بعض مسلمانوں کے دلوں پر مخالفین کے گمراہ کن پروپیگنڈے اور باطل استدلالات کا اثر پایا جاتا تھا ، جس کا اندازہ اس امر سے ہورہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سلسلے میں بار بار تاکید کے ساتھ مسلمانوں کو خطاب فرماتے ہیں اور اس اثر کے ازالے کے لئے قرآن مجید نے یہ زوردار انداز بیان اختیار کیا ہے اور تحویل قبلہ کی ان وقتی ہدایات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قرآن مجید کا جزء بنادیا گیا ۔ تاکہ اس قسم کے حالات میں ، مسلمان ایسا ہی طرز عمل اختیار کریں ، کیونکہ وہ ایک ایسے معرکے میں کود پڑے ہیں جو تاقیامت جاری رہے گا ، کبھی ٹھنڈا نہ ہوگا ، کبھی نرم نہ ہوگا ، یعنی معرکہ انقلاب اسلامی۔

اس مناسبت سے قرآن مجید مسلمانوں کو پھر یاد دلاتا ہے کہ اللہ نے تمہیں اپنی نعمت سے نوازا ہے۔ اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے تمہاری طرف اپنے نبی کو بھیجا ، وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جو قبلہ مسلمین بیت الحرام کے معمار اول تھے ۔ یوں قرآن مجید مسلمانوں کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا روحانی وارث قرار دیتا ہے ۔ اور مسلمانوں کا براہ راست تعلق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے قائم کردیا جاتا ہے ۔