ومن اظلم ممن منع مساجد الله ان يذكر فيها اسمه وسعى في خرابها اولايك ما كان لهم ان يدخلوها الا خايفين لهم في الدنيا خزي ولهم في الاخرة عذاب عظيم ١١٤
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَـٰجِدَ ٱللَّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا ٱسْمُهُۥ وَسَعَىٰ فِى خَرَابِهَآ ۚ أُو۟لَـٰٓئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَآ إِلَّا خَآئِفِينَ ۚ لَهُمْ فِى ٱلدُّنْيَا خِزْىٌۭ وَلَهُمْ فِى ٱلْـَٔاخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌۭ ١١٤
وَمَنْ
اَظْلَمُ
مِمَّنْ
مَّنَعَ
مَسٰجِدَ
اللّٰهِ
اَنْ
یُّذْكَرَ
فِیْهَا
اسْمُهٗ
وَسَعٰی
فِیْ
خَرَابِهَا ؕ
اُولٰٓىِٕكَ
مَا
كَانَ
لَهُمْ
اَنْ
یَّدْخُلُوْهَاۤ
اِلَّا
خَآىِٕفِیْنَ ؕ۬
لَهُمْ
فِی
الدُّنْیَا
خِزْیٌ
وَّلَهُمْ
فِی
الْاٰخِرَةِ
عَذَابٌ
عَظِیْمٌ
۟
3

آیت 114 وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ اَنْ یُّذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ مشرکین مکہ نے مسلمانوں کو مسجد حرام میں حاضری سے محروم کردیا تھا اور ان کو وہاں جانے کی اجازت نہ تھی۔ 6 ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رض کے ہمراہ عمرے کے ارادے سے مکہ کا سفر فرمایا ‘ لیکن مشرکین نے آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کو مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ اس موقع پر صلح حدیبیہ ہوئی اور آپ ﷺ ‘ کو عمرہ کیے بغیرواپس آنا پڑا۔ پھر اگلے برس 7 ہجری میں آپ ﷺ نے صحابہ کرام رض کے ہمراہ عمرہ ادا کیا۔ تو یہ سات برسٌ محمد رسول اللہ ﷺ اور اہل ایمان پر بہت شاق گزرے ہیں۔ یہاں مشرکین مکہ کے اس ظلم کا ذکر ہو رہا ہے کہ انہوں نے اہل ایمان کو مسجد حرام سے روک رکھا ہے۔ وَسَعٰی فِیْ خَرَابِہَا ط خراب اور تخریب کا مادۂ اصلی ایک ہی ہے۔ تخریب دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک ظاہری تخریب کہ مسجد کو گرا دینا ‘ اور ایک باطنی اور معنوی تخریب کہ اللہ کے گھر کو توحید کی بجائے شرک کا اڈہ بنا دینا۔ مشرکین مکہ نے بیت اللہ کو بت کدہ بنا دیا تھا : ؂دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا ہم اس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا !خانہ کعبہ میں 360 بت رکھ دیے گئے تھے ‘ جسے ابراہیم علیہ السلام نے توحید خالص کے لیے تعمیر کیا تھا۔ مساجد کے ساتھ لفظ خراب ایک حدیث میں بھی آیا ہے۔ یہ بڑی دلدوز حدیث ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آپ اسے ذہن نشین کرلیں۔حضرت علی رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یُوْشِکُ اَنْ یَاْتِیَ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ اندیشہ ہے کہ لوگوں پر یعنی میری امت پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ لَا یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَام الاَّ اسْمُہٗ اسلام میں سے اس کے نام کے سوا کچھ نہیں بچے گا وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْآن الاَّ رَسْمُہٗ اور قرآن میں سے اس کے رسم الخط الفاظ اور حروف کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اسی کی ضمانت دی ہے کہ قرآن حکیم کے الفاظ و حروف من وعن محفوظ رہیں گے۔ مَسَاجِدُھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدٰی ان کی مسجدیں آباد تو بہت ہوں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوجائیں گی۔ یہاں بھی لفظ خراب نوٹ کیجیے۔ گویا معنوی اعتبار سے یہ ویران ہوجائیں گی۔ عُلَمَاوؤھُمْ شَرٌّ مَنْ تَحْتَ اَدِیْمِ السَّمَاءِ ان کے علماء آسمان کی چھت کے نیچے کے بدترین انسان ہوں گے۔ مِنْ عِنْدِھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ وَفِیْھِمْ تَعُوْدُ 13 فتنہ ان ہی کے اندر سے برآمد ہوگا اور انہی میں گھس جائے گا۔ یعنی ان کا کام ہی فتنہ انگیزی ‘ مخالفت اور جنگ وجدال ہوگا۔ اپنے اپنے فرقے کے لوگوں کے جذبات کو بھڑکاتے رہنا اور مسلمانوں کے اندر اختلافات کو ہوا دینا ہی ان کا کام رہ جائے گا۔آج جن کو ہم علماء کہتے ہیں ان کی عظیم اکثریت اس کیفیت سے دوچار ہوچکی ہے۔ جب مذہب اور دین پیشہ بن جائے تو اس میں کوئی خیر باقی نہیں رہتا۔ دین اور مذہب پیشہ نہیں تھا ‘ لیکن اسے پیشہ بنا لیا گیا۔ اسلام میں کوئی پیشوائیت نہیں ‘ کوئی پاپائیت نہیں ‘ کوئی برہمنیت نہیں۔ اسلام تو ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔ ہر شخص کتاب اللہ پڑھے ‘ ہر شخص عربی سیکھے اور کتاب اللہ کو سمجھے۔ ہر شخص کو عبادات کے قابل ہونا چاہیے۔ ہر شخص اپنی بچی کا نکاح خود پڑھائے ‘ اپنے والد کا جنازہ خود پڑھائے۔ ہم نے خود اسے پیشہ بنا دیا ہے اور عبادات کے معاملے میں ایک خاص طبقے کے محتاج ہوگئے ہیں۔ مرزا غالبؔ نے کہا تھا : ع پیشے میں عیب نہیں ‘ رکھیے نہ فرہاد کو نام !ایک چیز جب پیشہ بن جاتی ہے تو اس میں پیشہ ورانہ چشمکیں اور رقابتیں در آتی ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بات واضح رہے کہ دنیا کبھی علماءِ حق سے خالی نہیں ہوگی۔ چناچہ یہاں علماءِ حق بھی ہیں اور علماءِ سو بھی ہیں ‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی اکثریت کا حال وہی ہوچکا ہے جو حدیث میں بیان ہوا ہے ‘ ورنہ امت کا یوں بیڑہ غرق نہ ہوتا۔اُولٰٓءِکَ مَا کَانَ لَہُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْہَآ اِلاَّ خَآءِفِیْنَ ط۔ ان لوگوں کو لائق نہیں ہے کہ اللہ کی مسجدوں میں داخل ہوں ‘ یہ اگر وہاں جائیں بھی تو ڈرتے ہوئے جائیں۔لَہُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّلَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ۔ اگلی آیت میں تحویل قبلہ کے لیے تمہید باندھی جا رہی ہے۔ قبلہ کی تبدیلی بڑا حساس معاملہ تھا۔ جن لوگوں کو یروشلم اور بیت المقدس کے ساتھ دلچسپی تھی ان کے دلوں میں اس کی عقیدت جاگزیں تھی ‘ جبکہ مکہ مکرمہ اور بیت اللہ کے ساتھ جن کو دلچسپی تھی ان کے دلوں میں اس کی محبت و عقیدت تھی۔ تو اس حوالے سے قبلہ کی تبدیلی کوئی معمولی بات نہ تھی۔ ہجرت کے بعد قبلہ دو دفعہ بدلا ہے۔ مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کا قبلہ بیت اللہ تھا۔ مدینے میں آکر رسول اللہ ﷺ نے سولہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی اور پھر بیت اللہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم آیا۔ اس طرح اہل ایمان کے کئی امتحان ہوگئے ‘ ان کا ذکر آگے آجائے گا۔ لیکن یہاں اس کی تمہید بیان ہو رہی ہے۔ فرمایا :