فجاءته احداهما تمشي على استحياء قالت ان ابي يدعوك ليجزيك اجر ما سقيت لنا فلما جاءه وقص عليه القصص قال لا تخف نجوت من القوم الظالمين ٢٥
فَجَآءَتْهُ إِحْدَىٰهُمَا تَمْشِى عَلَى ٱسْتِحْيَآءٍۢ قَالَتْ إِنَّ أَبِى يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا ۚ فَلَمَّا جَآءَهُۥ وَقَصَّ عَلَيْهِ ٱلْقَصَصَ قَالَ لَا تَخَفْ ۖ نَجَوْتَ مِنَ ٱلْقَوْمِ ٱلظَّـٰلِمِينَ ٢٥
فَجَآءَتْهُ
اِحْدٰىهُمَا
تَمْشِیْ
عَلَی
اسْتِحْیَآءٍ ؗ
قَالَتْ
اِنَّ
اَبِیْ
یَدْعُوْكَ
لِیَجْزِیَكَ
اَجْرَ
مَا
سَقَیْتَ
لَنَا ؕ
فَلَمَّا
جَآءَهٗ
وَقَصَّ
عَلَیْهِ
الْقَصَصَ ۙ
قَالَ
لَا
تَخَفْ ۫ۥ
نَجَوْتَ
مِنَ
الْقَوْمِ
الظّٰلِمِیْنَ
۟
3

قَالَتْ اِنَّ اَبِیْ یَدْعُوْکَ لِیَجْزِیَکَ اَجْرَ مَا سَقَیْتَ لَنَا ط ”یعنی آپ نے ہمارے جانوروں کو پانی پلانے کے لیے جو مشقت اٹھائی ‘ ہمارے والد آپ کو اس کا کچھ اجر دینا چاہتے ہیں۔فَلَمَّا جَآءَ ہٗ وَقَصَّ عَلَیْہِ الْقَصَصَلا ”اس آیت میں لفظ ”القَصَص“ آیا ہے اور اسی مناسبت سے اس سورة کا نام القَصَصہے۔قَالَ لَا تَخَفْقف نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ”یعنی آپ علیہ السلام کے ان دشمنوں کی اس علاقے تک رسائی نہیں۔ یہاں آپ کو کسی قسم کی پریشانی یا تکلیف نہیں ہوگی۔ آپ یہاں آرام سے رہ سکتے ہیں۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہاں جس شخصیت کا ذکر ہے وہ حضرت شعیب علیہ السلام تھے ‘ اس لیے کہ حضرت شعیب علیہ السلام کے مدین میں مبعوث ہونے کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ چناچہ علامہ اقبال نے بھی اس شعر میں اسی طرف اشارہ کیا ہے : اگر کوئی شعیب علیہ السلام آئے میسر شبانی سے کلیمی دو قدم ہے !یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام آٹھ یا دس سال تک چرواہے کی حیثیت سے حضرت شعیب علیہ السلام کی خدمت میں رہے اور یہ اسی تربیت کا نتیجہ تھا کہ آپ علیہ السلام چرواہے سے کلیم اللہ بن گئے۔ اس مفروضہ کو اگر حقائق و واقعات کی روشنی میں پرکھا جائے تو یہ درست ثابت نہیں ہوتا۔ حضرت شعیب علیہ السلام کے بارے میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ آپ علیہ السلام اللہ کے رسول علیہ السلام تھے۔ اور کوئی بھی رسول علیہ السلام جب کسی قوم کی طرف مبعوث ہوتا ہے تو اس کی بعثت یا رسالت دو ادوار پر مشتمل ہوتی ہے۔ ایک دعوت کا دور اور دوسرا نزول عذاب کے بعد کا دور۔ اب اگر یہ فرض کیا جائے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حضرت شعیب علیہ السلام سے ملاقات آپ علیہ السلام کے زمانۂ دعوت میں ہوئی تھی یعنی اس وقت تک ابھی اہل مدین آپ علیہ السلام کی تکذیب کر کے عذاب کے مستحق نہیں ہوئے تھے تو اس واقعہ کا رنگ بالکل ہی مختلف ہونا چاہیے تھا اور اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس زمانے میں مدین پہنچے تھے جب اہل مدین پر عذاب آچکا تھا اور حضرت شعیب علیہ السلام اس وقت عذاب سے محفوظ رہ جانے والے مؤمنین کے ساتھ رہ رہے تھے تو ایسی صورت میں یہ ہرگز ممکن نہ تھا کہ اللہ کے رسول کی بیٹیاں یوں پریشان حال جنگل میں بکریاں چراتی پھرتیں اور امت میں سے کوئی ان کا پرسان حال نہ ہوتا۔ بہر حال واقعہ کا انداز خود بتارہا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ملاقات جس شخصیت سے ہوئی تھی وہ حضرت شعیب علیہ السلام نہیں تھے ‘ بلکہ حضرت شعیب علیہ السلام کے ساتھ بچ جانے والے مؤمنین کی نسل میں سے کوئی نیک سیرت بزرگ تھے۔ اب یہ معلوم کرنا تو مشکل ہے کہ یہ واقعہ حضرت شعیب علیہ السلام کے کتنے عرصے بعد کا ہے ‘ بہرحال اس وقت تک حضرت شعیب علیہ السلام کی تعلیمات کے کچھ نہ کچھ اثرات معاشرے کے اندر موجود تھے۔