اِنَّ
الَّذِیْنَ
یُحِبُّوْنَ
اَنْ
تَشِیْعَ
الْفَاحِشَةُ
فِی
الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا
لَهُمْ
عَذَابٌ
اَلِیْمٌ ۙ
فِی
الدُّنْیَا
وَالْاٰخِرَةِ ؕ
وَاللّٰهُ
یَعْلَمُ
وَاَنْتُمْ
لَا
تَعْلَمُوْنَ
۟
3

(ان الذین۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وانتم لا تعلمون) (24 : 19) ” جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں درد ناک سزا کے مستحق ہیں۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے “۔ وہ لوگ جنہوں نے پاک دامن عورتوں پر الزامات عائد کیے خصوصاً وہ لوگ جنہوں نے حریم نبوی پر بےبنیاد الزام لگانے کی جرأت کی ان لوگوں کی اصل خواہش یہ ہے کہ یہ جماعت مسلمہ کے اندر سے بھلائی اور عفت اور پاکیزگی کے اعتماد کو متزلزل کردیں اور فحاشی کا اس قدر جھوٹا ڈھنڈورا کریں کہ لوگ اس کے بارے میں دلیر ہوجائیں۔ لوگ یہ کہیں کہ یہ بےحیائی تو بڑے لوگوں میں عام ہے۔ اس طرح وہ جھوٹے قصوں سے فحاشی کی مجالس گرم کر کے اس کو عام کردیں۔

یہ ہے ان جھوٹے الزاموں کا اثر۔ قرآن کریم یہ سمجھا نا چاہتا ہے کہ جھوٹے الزامات کی وجہ سے فحاشی پھیلتی ہے اس لیے ایسے لوگوں کے لیے دنیا اور آخرت دونوں میں عذاب الیم تجویز کیا گیا ہے۔

قرآن کے انداز تربیت کا یہ ایک انداز ہے اور بتانا یہ مقصود ہے کہ یہ قانون اور سزا امتناعی تدابیر میں سے ایک تدبیر ہے اور یہ تدابیر اللہ ہی اختیار کرسکتا ہے جو انسانی نفسیات کا خالق ہے اور وہی اچھی طرح جانتا ہے کہ انسانی شعور کو ان کیفیات میں رنگا جاسکتا ہے اور اس کے رخ کو کس انداز سے اچھی سمت دی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ فرماتے ہیں۔

واللہ یعلم وانتم لاتعلمون (24 : 19) ” اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ہو “۔ انسانی نفسیات کو اس ذات سے زیادہ کون جانتا ہے جس نے اسے پیدا کیا ہے اور انسانی طرز عمل کو اچھے انداز میں کون چلاسکتا ہے ماسوائے اس کے جس نے اس کو وجود بخشا ہے۔ کون ہے جو ظاہر اور باطن سے واقف ہے اور اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے وہی تو علیم وخبیر ہے۔