سنۃ من قد ارسلنا قبلک من رسلنا ولا تحد لسنتنا تحویلا (71 : 77) ” یہ ہمارا مستقبل طریق کار ہے جو ان سب رسولوں کے معاملے میں ہم نے برتا ہے جنہیں تم سے پہلے ہم نے بھیجا تھا اور ہمارے طریق کار میں تم کوئی تغیر نہ پائو گے “۔
اللہ تعالیٰ نے یہ اٹل قانون بنایا ہے کہ جو قوم رسول کو ملک بدر کردیتی ہے اللہ اے نیست و نابود کردیتا ہے۔ کیونکہ رسولوں کا ملک بدر کرنا اس قدر بڑا جرم ہے کہ اسے سرزنش کے بغیر نہیں چھوڑا جاتا۔ اللہ کی اس کائنات کو اس کے اٹل قوانیں اور سنن چلا رہے ہیں اور لوگوں کے انفرادی اعمال کا اس میں کوئی لحاظ نہیں ہوتا۔ یہ کائنات محض اتفاقات کے مطابق نہیں چل رہی ہے کہ کچھ واقعات ہوجائیں اور گزر جائیں اور یہ کائنات یونہی چل رہی ہو۔ بلکہ اس کائنات کو اللہ کے اٹل قوانین کنٹرول کرتے ہیں۔ چونکہ عالم بالا میں ، بعض حکمتوں کی بنا پر یہ طے تھا کہ قریش کو بلاک اور نیست و نابود نہیں کرتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام کو طبیعی خوارق عادت معجزات نہیں دیے اور نہ قریش کو ہمت دی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو زبردستی یا حالات سے مجبور کر کے مکہ سے نکال دیں بلکہ بذریعہ وحی حکم دیا کہ آپ اس آبادی کو خود ہی چھوڑ دیں۔ یوں اللہ کی سنت جاری وساری رہی۔
اس کے بعد نبی ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ اللہ سے لو لگائے رکھیں ، اللہ سے نصرت اور معاونت طلب کرتے رہے اور جس راہ کو آپ ﷺ نے اپنایا ہے اس پر چلتے رہیں۔ حق کا بول بالا ہوگا اور باطل مغلوب اور زائل ہوگا۔ ان شاء اللہ۔