وَلَا
تَقْفُ
مَا
لَیْسَ
لَكَ
بِهٖ
عِلْمٌ ؕ
اِنَّ
السَّمْعَ
وَالْبَصَرَ
وَالْفُؤَادَ
كُلُّ
اُولٰٓىِٕكَ
كَانَ
عَنْهُ
مَسْـُٔوْلًا
۟
3

آیت 36 وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌبحیثیت اشرف المخلوقات انسان کا طرز عمل خالص علم پر مبنی ہونا چاہیے۔ اسے زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے کسی عمل یا نظریے کی بنیاد توہمات پر رکھے یا ایسی معلومات کو لائق اعتناء سمجھے جن کی کوئی علمی سند نہ ہو۔ مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ خود انسانی علم کی بنیاد اور اس کا منبع کیا ہے ؟ اس سلسلے میں ہم جانتے ہیں کہ بنیادی طور پر انسانی علم کی دو اقسام ہیں۔ ایک اکتسابی علم acquired knowledge اور دوسرا الہامی علم revealed knowledge۔ اکتسابی علم کی بنیاد وہی علم الاسماء ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو سکھایا تھا اور جس کا ذکر ہم سورة البقرۃ کے چوتھے رکوع میں پڑھ آئے ہیں۔ اس علم کا تعلق انسانی حواس اور ذہن سے ہے۔ انسان اپنے حواس کی مدد سے یہ علم حاصل کر کے اپنے ذہن میں محفوظ کرتا رہتا ہے۔ جوں جوں انسان کے تجربے اور مشاہدے کا دائرہ پھیلتا ہے اس علم میں بھی توسیع ہوتی جاتی ہے اور یوں یہ علم کرۂ ارض پر انسانی زندگی کے روز اوّل سے لے کر آج تک مسلسل ارتقا پذیر ہے۔ دوسری طرف الہامی علم ہے جس کا انسان کے حواس سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔ اس علم کے تمام ذرائع مثلاً وحی جلی یا خفی الہام کشف اور رؤیائے صادقہ سچے خواب کا تعلق انسان کے حیوانی وجود کے بجائے اس کے روحانی وجود سے ہے۔ انسانی روح اس علم کو براہ راست موصول کرتی ہے اور اس کا مسکن و مرکز انسانی قلب ہے۔ اس سلسلے میں دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ انبیاء پر نازل ہونے والی وحی۔ چاہے جلی ہو یا خفی نبوت کا حصہ ہے اور علمی لحاظ سے ایک قطعی دلیل یا برہان قاطع ہے۔ لیکن کسی عام شخص کو وحی خفی الہام یا کشف کے ذریعے ملنے والا علم دوسروں کے لیے کوئی علمی دلیل فراہم نہیں کرتا۔ ایسا علم صرف متعلقہ شخص کے لیے دلیل ہوسکتا ہے اور وہ بھی صرف اس صورت میں جب وہ خلاف شریعت نہ ہو۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو آیت زیر نظر میں انسان کا اکتسابی علم زیر بحث ہے۔ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْــــُٔــوْلًااللہ تعالیٰ نے انسان کو علم کے اکتساب و استعمال کے لیے حواس خمسہ جن میں سے دو اہم ترین حواس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے اور عقل سے نوازا ہے اور اس لحاظ سے اس کی ان صلاحیتوں کا احتساب بھی ہوگا۔ یہاں پر لفظ فؤاد بہت اہم ہے جس کی وضاحت ضروری ہے۔ عام طور پر اس لفظ کا ترجمہ ”دل“ کیا گیا ہے ‘ مگر اس ترجمے کے لیے کوئی لغوی بنیاد موجود نہیں۔ اس لفظ کا مادہ وہی ہے جس سے لفظ ”فائدہ“ مشتق ہے اور لفظ ”فائدہ“ کے معنی کسی چیز کے اس جوہر یا لب لباب کے ہیں جو اس چیز میں سے اصل مقصود ہوتا ہے۔ پرانے دور کی کتب میں یہ انداز عام ملتا ہے کہ کوئی حکایت یا روایت بیان کرنے کے بعد اس کا نتیجہ بیان کرنے کے لیے لفظ ”فائدہ“ یا صرف ”ف“ لکھ دیا جاتا تھا۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی تفصیل کے خلاصہ یا کسی کام کے نتیجہ کو فائدہ کہا جاتا ہے۔ لفظ ”فئید“ بھی اسی مادہ سے مشتق ہے۔ عربی میں ”فئید“ کسی سبزی یا گوشت وغیرہ کی بھجیا کو کہا جاتا ہے اور اس لفظ فئید میں بھی نتیجہ یا خلاصہ وغیرہ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ یعنی گوشت وغیرہ کو ابالنے یا بھوننے سے جب اس کا فالتو پانی خشک ہوجاتا ہے تب اس میں سے بہت تھوڑی مقدار میں وہ چیز حاصل ہوتی ہے جس پر لفظ فئید کا اطلاق ہوتا ہے۔اس لغوی وضاحت کے بعد لفظ ”فؤاد“ کے مفہوم اور انسانی حواس کے ساتھ اس کے تعلق کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ حواس انسانی اپنے اپنے ذرائع سے معلومات حاصل کر کے دماغ تک پہنچاتے ہیں۔ دماغ کا کمپیوٹر ان معلومات کو process کرتا ہے پہلے سے موجود اپنے ذخیرۂ معلومات کے ساتھ ان کا تطابق tally یا تقابل compare کرکے اس سارے عمل سے کوئی نتیجہ اخذ کرتا ہے اور پھر اس نتیجہ کو اپنے ذخیرۂ معلومات memory میں محفوظ store کرلیتا ہے۔ اسی ذخیرۂ معلومات کا نام علم ہے اور انسان کی وہ قوت یا صلاحیت جو اس سارے عمل کو ممکن بناتی ہے ”فواد“ کہلانے کی مستحق ہے۔ عرف عام میں اس قوت یا صلاحیت کو عقل یا شعور کہا جاتا ہے۔ چناچہ میرے نزدیک ”فواد“ کا درست ترجمہ عقل یا شعور ہی ہے۔ اس پورے تناظر میں اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مفید حواس sense organs عطا کیے ہیں اور ان حواس سے حاصل ہونے والی معلومات کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت سے اسے نوازا ہے۔ اب اگر انسان اپنے ان حواس سے استفادہ نہ کرے عقل و شعور کی صلاحیت سے کوئی کام نہ لے اور اپنے نظریات کی بنیاد توہمات پر رکھ لے تو وہ بہت بڑے ظلم کا مرتکب ہوگا۔ مثلاً زلزلے کے بارے میں کبھی لوگوں میں یہ نظریہ مشہور تھا کہ ہماری یہ زمین ایک بیل نے اپنے ایک سینگ پر اٹھا رکھی ہے۔ جب وہ تھک جاتا ہے تو اسے دوسرے سینگ پر منتقل کرتا ہے جس سے زلزلہ آجاتا ہے۔ اس مضحکہ خیز نظریے کے لیے نہ تو قرآن و حدیث میں کوئی دلیل موجود ہے اور نہ ہی انسان کے اکتسابی اور تجرباتی علوم اس کے لیے کوئی دلیل فراہم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کو اپنی ان صلاحیتوں کے حوالے سے اس ہستی کے سامنے جوابدہ رکھا گیا ہے جس نے اسے یہ سب کچھ عطا کیا ہے۔ چناچہ انسان کو چاہیے کہ جس چیز یا خبر کی بنیاد میں الہامی یا اکتسابی و تجرباتی علم کی کوئی قطعی دلیل موجود نہ ہو اسے قابل اعتناء نہ سمجھے اور اپنے فکار و نظریات کی بنیاد ایسے ٹھوس علمی حقائق پر رکھے جن کی وہ سائنٹیفک انداز میں توثیق و تصدیق بھی کرسکتا ہو۔ یہ آیت اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس نے علمی میدان میں نوع انسانی کی راہنمائی اس راستے کی طرف کی ہے جو انسان کے شایان شان ہے۔ یہاں پر ارسطو کے استخراجی فلسفے کا ذکر کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ ایک مدت تک پوری دنیا میں اس فلسفے کا ڈنکا بجتا رہا۔ عالم اسلام میں بھی یہ فلسفہ بہت مقبول رہا اور کئی صدیوں کے بعد اب جا کر کہیں اس کی گرفت ڈھیلی ہوئی ہے۔ استخراجی منطق deductive knowledge کے مطابق صرف دستیاب معلومات سے ہی نتائج اخد کیے جاتے تھے۔ چناچہ کسی موضوع پر جو تھوڑی بہت معلومات دستیاب ہوتی تھیں وقت کے فلسفی اور حکیم انہی میں سے بال کی کھال اتار اتار کر نتائج اخذ کرتے رہتے تھے۔ اس کے مقابلے میں قرآن نے استقرائی منطق inductive knowledge کا فلسفہ متعارف کرایا اور انسان کو مشاہدے اور تجربے کی مدد سے مسلسل علم حاصل کرنے کی راہ دکھائی : اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ وَاِلَی السَّمَآءِ کَیْفَ رُفِعَتْ وَاِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ وَاِلَی الْاَرْضِ کَیْفَ سُطِحَتْ الغاشیۃ ”کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں اونٹ کی طرف کہ کیسے پیدا کیا گیا ہے۔ اور آسمان کی طرف کہ کیسے بلند کیا گیا ہے۔ اور پہاڑوں کی طرف کہ کیسے نصب کیے گئے ہیں۔ اور زمین کی طرف کہ کیسے ہموار کی گئی ہے !“ علامہ اقبال نے اس فکر قرآنی کی ترجمانی یوں کی ہے : کھول آنکھ ‘ زمین دیکھ ‘ فلک دیکھ ‘ فضا دیکھ مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ !فطرت اور مظاہر فطرت کے بارے میں ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے قوانین بہت مضبوط اور مستحکم ہونے کے باوجود اللہ کے حکم کے تابع ہیں۔ اللہ جب چاہے فطرت کے ان قوانین کو معطل کرسکتا ہے یا بدل سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اصل حقیقت یہی ہے کہ اس کائنات کا عمومی نظام بہت مضبوط محکم اور اٹل طبعی اصول و قوانین پر چل رہا ہے اور ان قوانین کو معطل کرنے کے معجزات روز روز رونما نہیں ہوتے۔ سمندر حضرت موسیٰ کے لیے نوع انسانی کی تاریخ میں ایک ہی دفعہ پھٹا تھا اور آگ نے ایک ہی دفعہ حضرت ابراہیم کو جلانے سے انکار کیا تھا۔ بہر حال دنیا میں طبعی سائنس Physical Science کی مختلف ٹیکنالوجیز کا وجود فطرت کے اٹل قوانین کا ہی مرہون منت ہے اور اسی وجہ سے آج طرح طرح کی سائنسی ترقی ممکن ہوئی ہے۔ اسی بنیاد پر قرآن ان مظاہر فطرت کو اللہ تعالیٰ کی نشانیاں قرار دیتا ہے اور انسان کو دعوت فکر دیتا ہے کہ وہ اللہ کی ان نشانیوں کو غور سے دیکھے ان کے اندر کارفرما قوانین کا تجزیاتی مطالعہ کرکے نتائج اخذ کرے اور پھر ان نتائج کو کام میں لاکر اپنی زندگی میں ترقی کی نئی منازل تلاش کرے۔ علامہ اقبال نے اسی حوالے سے اپنے خطبات میں فرمایا ہے :" The inner core of the western civilization is Quranic." کہ موجودہ مغربی تہذیب کا اندرونی محور خالص قرآنی ہے ‘ کیونکہ اس کی بنیاد سائنس پر ہے اور سائنسی علوم کی طرف انسان کی توجہ قرآن نے مبذول کروائی ہے۔ بہرحال قرآن انسان کو ہر قسم کے توہمات رمل نجوم پامسڑی وغیرہ سے بیزار کر کے اپنے معاملات اور نظریات کی بنیاد ٹھوس علمی حقائق پر رکھنے کی ہدایت کرتا ہے۔ انسانی زندگی کے سفر میں توازن رکھنے کے لیے مذکورہ دونوں قسم کے علوم اکتسابی اور الہامی اپنے اپنے دائرۂ عمل میں نہایت اہم ہیں۔ دونوں کی اہمیت اس سے بھی واضح ہوتی ہے کہ حضرت آدم کی پیدائش کے فوراً بعد آپ کو علم الاسماء یہ وہی علم ہے جس کا تعلق انسانی حواس سے ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ جس کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے سے بھی نواز دیا گیا تھا اور آپ کو زمین پر بھیجتے وقت الہامی علم کی اتباع کی ہدایت بھی کردی گئی تھی : فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ہُدًی فَمَنْ تَبِعَ ہُدَایَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ البقرۃ ”پھر اگر آئے تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت تو جس نے پیروی کی میری ہدایت کی تو ان کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔“یورپی معاشرہ اس سلسلے میں بہت بڑی کوتاہی کا مرتکب ہوا ہے کہ اس معاشرے میں ساری توجہ اکتسابی علم پر مرکوز کر کے الہامی علم سے بالکل ہی صرف نظر کرلیا گیا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو آنکھیں دی تھیں ‘ ان میں ایک اکتسابی علم کی آنکھ تھی اور دوسری الہامی علم کی۔ یورپ میں ایک آنکھ کو مکمل طور پر بند کر کے ہرچیز کو دیکھنے اور پرکھنے کے لیے دوسری اکیلی آنکھ پر ہی انحصار کرلیا گیا۔ نتیجتاً نہ تو انسان کی سوچ میں اعتدال رہا نہ عمل میں توازن اور یوں اس پورے معاشرے نے یک چشمی دجالیت کی شکل اختیار کرلی۔