آپ 12:54 سے 12:57 آیات کے گروپ کی تفسیر پڑھ رہے ہیں
وَقَالَ
الْمَلِكُ
ائْتُوْنِیْ
بِهٖۤ
اَسْتَخْلِصْهُ
لِنَفْسِیْ ۚ
فَلَمَّا
كَلَّمَهٗ
قَالَ
اِنَّكَ
الْیَوْمَ
لَدَیْنَا
مَكِیْنٌ
اَمِیْنٌ
۟
قَالَ
اجْعَلْنِیْ
عَلٰی
خَزَآىِٕنِ
الْاَرْضِ ۚ
اِنِّیْ
حَفِیْظٌ
عَلِیْمٌ
۟
وَكَذٰلِكَ
مَكَّنَّا
لِیُوْسُفَ
فِی
الْاَرْضِ ۚ
یَتَبَوَّاُ
مِنْهَا
حَیْثُ
یَشَآءُ ؕ
نُصِیْبُ
بِرَحْمَتِنَا
مَنْ
نَّشَآءُ
وَلَا
نُضِیْعُ
اَجْرَ
الْمُحْسِنِیْنَ
۟
وَلَاَجْرُ
الْاٰخِرَةِ
خَیْرٌ
لِّلَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا
وَكَانُوْا
یَتَّقُوْنَ
۟۠
3

’’مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کردو‘‘۔ یہاں خزانوں سے مراد غلہ کے کھتے ہیں۔ حضرت یوسف نے بادشاہ کو اپنی طرف متوجہ دیکھ کر شاہ مصر سے یہ اختیار مانگا کہ وہ حکومتی وسائل کے تحت سارے ملک میں غلّہ کے بڑے بڑے کھتے بنوائیں تاکہ ابتدائی سات سالوں میں کسانوں سے فاضل غلّہ لے کر وہاں محفوظ کیا جاسکے (تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ 397 ) بادشاہ راضی ہوگیا اور اپنے آئینی اور قانونی اقتدار کے تحت آپ کو ہر قسم کا اختیار دے دیا۔

مصر کا بادشاہ مشرک تھا۔ آیت نمبر 76 سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت یوسف کے تقرر کے تقریباً دس سال بعد تک بھی اسی بادشاہ کا قانون (دین الملک) مصر میں رائج تھا۔ یہ خدا کے ایک پیغمبر کا اسوہ ہے جو بتاتا ہے کہ غیر مسلم حکومت کے تحت کوئی ذیلی عہدہ قبول کرنا اسلام کے خلاف نہیں ہے۔ اسی بنا پر اسلاف نے ظالم بادشاہ کے تحت قضا کے عہدے قبول كيے (تفسیر النسفی، جلد2، صفحہ 119 )

مصر میں اختیار سنبھالنے سے حضرت یوسف کا مقصد کیا تھا، قرآن کی تفصیل سے بظاہر اس کا مقصد یہ معلوم ہوتاہے کہ بندگان خدا کو طویل قحط کی مصیبت سے بچایا جائے، اور پھر اس کے نتیجہ میں بنی اسرا ئیل کے لیے مصر میں آباد ہونے کے مواقع فراہم كيے جائیں۔

ایمان اور تقویٰ کی روش اختیار کرنے والوں کے لیے خدا نے ابدی جنت کا یقینی وعدہ کیا ہے۔ دنیا کی زندگی میں بھی ان کو خدا کی مدد حاصل ہوتی ہے۔ تاہم اس میں ایک فرق ہے۔ جہاں تک حق کے اعلان کا معاملہ ہے، اس کی توفیق ہر ایک کو یکساں طور پر ملتی ہے۔ مگر عملی یافت کے معاملہ میں سب کی نصرت یکساں انداز میں نہیں۔ عملی نصرت کسی کو ایک ڈھنگ پر ملتی ہے اور کسی کو دوسرے ڈھنگ پر۔

اپنے Quran.com کے تجربے کو زیادہ سے زیادہ بنائیں!
ابھی اپنا دورہ شروع کریں:

0%