آپ 11:80 سے 11:83 آیات کے گروپ کی تفسیر پڑھ رہے ہیں
قال لو ان لي بكم قوة او اوي الى ركن شديد ٨٠ قالوا يا لوط انا رسل ربك لن يصلوا اليك فاسر باهلك بقطع من الليل ولا يلتفت منكم احد الا امراتك انه مصيبها ما اصابهم ان موعدهم الصبح اليس الصبح بقريب ٨١ فلما جاء امرنا جعلنا عاليها سافلها وامطرنا عليها حجارة من سجيل منضود ٨٢ مسومة عند ربك وما هي من الظالمين ببعيد ٨٣
قَالَ لَوْ أَنَّ لِى بِكُمْ قُوَّةً أَوْ ءَاوِىٓ إِلَىٰ رُكْنٍۢ شَدِيدٍۢ ٨٠ قَالُوا۟ يَـٰلُوطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَن يَصِلُوٓا۟ إِلَيْكَ ۖ فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍۢ مِّنَ ٱلَّيْلِ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنكُمْ أَحَدٌ إِلَّا ٱمْرَأَتَكَ ۖ إِنَّهُۥ مُصِيبُهَا مَآ أَصَابَهُمْ ۚ إِنَّ مَوْعِدَهُمُ ٱلصُّبْحُ ۚ أَلَيْسَ ٱلصُّبْحُ بِقَرِيبٍۢ ٨١ فَلَمَّا جَآءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَـٰلِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةًۭ مِّن سِجِّيلٍۢ مَّنضُودٍۢ ٨٢ مُّسَوَّمَةً عِندَ رَبِّكَ ۖ وَمَا هِىَ مِنَ ٱلظَّـٰلِمِينَ بِبَعِيدٍۢ ٨٣
قَالَ
لَوْ
اَنَّ
لِیْ
بِكُمْ
قُوَّةً
اَوْ
اٰوِیْۤ
اِلٰی
رُكْنٍ
شَدِیْدٍ
۟
قَالُوْا
یٰلُوْطُ
اِنَّا
رُسُلُ
رَبِّكَ
لَنْ
یَّصِلُوْۤا
اِلَیْكَ
فَاَسْرِ
بِاَهْلِكَ
بِقِطْعٍ
مِّنَ
الَّیْلِ
وَلَا
یَلْتَفِتْ
مِنْكُمْ
اَحَدٌ
اِلَّا
امْرَاَتَكَ ؕ
اِنَّهٗ
مُصِیْبُهَا
مَاۤ
اَصَابَهُمْ ؕ
اِنَّ
مَوْعِدَهُمُ
الصُّبْحُ ؕ
اَلَیْسَ
الصُّبْحُ
بِقَرِیْبٍ
۟
فَلَمَّا
جَآءَ
اَمْرُنَا
جَعَلْنَا
عَالِیَهَا
سَافِلَهَا
وَاَمْطَرْنَا
عَلَیْهَا
حِجَارَةً
مِّنْ
سِجِّیْلٍ ۙ۬
مَّنْضُوْدٍ
۟ۙ
مُّسَوَّمَةً
عِنْدَ
رَبِّكَ ؕ
وَمَا
هِیَ
مِنَ
الظّٰلِمِیْنَ
بِبَعِیْدٍ
۟۠
3

حضرت لوط ابتداء ً آنے والے نوجوانوں کو انسان سمجھ رہے تھے۔جب حضرت لوط کی پریشانی بڑھی اور وہ اپنے کو خطرہ ميں محسوس کرنے لگے تو انھوںنے بتایا کہ ہم فرشتے ہیں۔ اور خدا کی طرف سے بھیجے گئے ہیں۔ یعنی یہ معاملہ انسانی معاملہ نہیں بلکہ خدائی معاملہ ہے۔ وہ نہ ہمارا کچھ بگاڑ سکیں گے اور نہ تمھارا۔ چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ جب قوم لوط کے لوگ آگے بڑھنے سے نہ رکے تو ایک فرشتہ نے اپنا بازو گھمایا۔ اس کے بعد وہ سب کے سب اندھے ہوگئے اور یہ کہتے ہوئے لوٹ گئے کہ— بھاگو، لوط کے مہمان تو بڑے جادو گر معلوم ہوتے ہیں۔

جب خدا کسی قوم کو اس کی سرکشی کی بنا پر ہلاک کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو یہ اس پورے علاقے کے لیے ایک عام حکم ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر اس علاقے میں بسنے والے تمام جاندار خدائی عذاب کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ البتہ خدا کے خصوصی انتظامات کے تحت وہ لوگ اس سے بچا لیے جاتے ہیں جنھوں نے ان سرکش لوگوں کے اوپر حق کا اعلان کیا ہو۔ اعلانِ حق خدا کی پکڑ سے بچنے کی سب سے بڑی ضمانت ہے۔ موجودہ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔

حضرت لوط کی بیوی کے بارے میں روایات میں آتا ہے کہ وہ دل سے حضرت لوط کے ساتھ نہ تھی۔ مگر آخر وقت میں جب حضرت لوط یہ کہہ کر بستی سے نکلے کہ صبح تک یہاں عذاب آجائے گا تو وہ بھی آپ کے قافلہ کے ساتھ ہوگئی۔ تاہم ابھی یہ لوگ راستے میں تھے کہ پیچھے زلزلہ اور طوفان کا شور سنائی دیا۔ حضرت لوط اور ا ن کے مخلص ساتھیوں نے پیچھے توجہ نہ دی۔ مگر حضرت لوط کی بیوی پیچھے مڑ کر دیکھنے لگی اور جب اس کو دھواں اور شور دکھائی دیا تو اس کی زبان سے نکلا واقوماہ (ہائے میری قوم)۔اس وقت عذاب کا ایک پتھر آکر اس کو لگا اور وہیں اس کا خاتمہ ہوگیا۔

اس میں سبق یہ ہے کہ ایک شخص اگر واقعۃً خدا اور رسول کا وفادار نہیں ہے تو کسی اور محرک کے تحت قافلۂ حق کے ساتھ لگ جانے سے وہ نجات نہیں پائے گا۔ اس کی کمزوری کہیں نہ کہیں ظاہر ہوگی اور وہیں وہ بیٹھ کر رہ جائے گا۔