وان یمسسک اللہ بضر فلا کاشف لہ الا ھو وان یردک بخیر فلا راد لفضلہ اور اگر تجھ کو کوئی دکھ چھوا (بھی) دے تو اس کو دور کرنے والا سوائے اس کے اور کوئی نہیں اور اگر وہ تجھ کو کوئی راحت پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کو کوئی لوٹانے والا نہیں۔
مَسٌّ سے مراد ہے پہنچانا۔ ضُرّ بیماری ‘ یا سختی ‘ یا مصیبت۔ فَلاَ کَاشِفَ اس کو دفع کرنے والا کوئی نہیں (کشفکھولنا ‘ مراد دفع کرنا) خیر دنیا اور آخرت کی بھلائی۔ دکھ یا سکھ سب اللہ کے ارادہ سے ہی ہوتا ہے لیکن اس جگہ ضُرّ کے ساتھ لفظ مس اور خیر کے ساتھ ارادہ کا لفظ استعمال کرنے سے غالباً اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ کا اصل مقصد خیر پہنچانا ہوتا ہے اور دکھ پہنچانا مقصد اوّل نہیں ہوتا۔ لِفَضْلِہٖ کے لفظ میں بجائے سادہ ضمیر کے لفظ فضل کا اضافہ یہ ظاہر کر رہا ہے کہ اللہ جو خیر عطا فرماتا ہے ‘ وہ اپنی مہربانی سے عطا فرماتا ہے ‘ کسی کا اس پر کوئی حق نہیں ہے۔
یصیب بہ من یشاء من عبادہ وھو الغفور الرحیم۔ وہ دکھ سکھ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے پہنچاتا ہے اور وہی بڑی مغفرت اور بڑی رحمت والا ہے۔ یعنی خیر ہو یا شر ‘ سب کچھ اللہ ہی جس کو چاہتا ہے پہنچاتا ہے ‘ لہٰذا تم پر لازم ہے کہ طاعت کے ساتھ خیر کے طلبگار بنو مگر طاعت پر اعتماد نہ کر بیٹھو اور مغفرت سے ناامید بھی نہ ہو ‘ بلکہ عذاب کا خوف رکھو (اور رحمت کی امید) ابونعیم نے حضرت علی کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : اللہ نے اسرائیلی انبیاء میں سے ایک نبی کے پاس وحی بھیجی کہ تمہاری امت میں جو طاعت گذار لوگ ہوں ‘ ان سے کہہ دو کہ اپنے اعمال پر بھروسہ نہ کر بیٹھیں۔ قیامت کے دن حساب کیلئے جب میں بندوں کو کھڑا کروں گا تو جس کو عذاب دینا چاہوں گا (اس کی حساب فہمی خوردہ گیری کے ساتھ کروں گا اور) اس کو عذاب دوں گا اور اپنی امت کے گنہگاروں سے کہہ دو کہ خود اپنے کو ہلاکت میں نہ ڈالو (یعنی ناامید نہ ہو) اگر میں چاہوں گا تو بڑے بڑے گناہ معاف کر دوں گا اور مجھے پرواہ بھی نہ ہوگی۔
مذکورۂ بالا آیات نازل فرما کر اللہ نے اپنے سوا دوسروں سے ڈرنے یا امید رکھنے کا راستہ ہی بند کردیا۔
اللہ غفور و رحیم ہے ‘ یعنی اس کی رحمت غضب پر غالب ہے۔