94:7 ile 95:2 arasındaki ayetler grubu için bir tefsir okuyorsunuz
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت 7 ‘ 8{ فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ - وَاِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ۔ } ”پھر جب آپ ﷺ فرائض نبوت سے فارغ ہوجائیں تو اسی کام میں لگ جایئے۔ اور اپنے رب کی طرف راغب ہوجایئے۔“ تو اے نبی ﷺ ! جب آپ اپنے فرضِ منصبی سے فارغ ہوجائیں اور اللہ کا دین غالب ہوجائے تو پھر آپ یکسو ہو کر اللہ کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ نوٹ کیجیے ! سورة النصر میں بھی حضور ﷺ کے لیے بالکل یہی پیغام ہے :{ اِذَا جَآئَ نَصْرُاللّٰہِ وَالْفَتْحُ - وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا - فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُطٓ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا۔ } یعنی جب غلبہ دین کے حوالے سے آپ ﷺ کا مشن مکمل ہوجائے تو پھر ہمہ تن ‘ ہمہ وقت آپ اللہ کی طرف متوجہ ہوجایئے گا اور تقرب الی اللہ کے لیے محنت شروع کردیجیے گا۔ چناچہ جونہی آپ ﷺ کا مشن پایہ تکمیل کو پہنچا تو آپ ﷺ نے فوراً محبوب کی طرف مراجعت کا فیصلہ کرلیا اَللّٰھُمَّ فِی الرَّفِیْقِ الاَعْلٰی کہ اے اللہ اب میں اپنے فرائض منصبی سے فارغ ہوگیا ہوں ‘ اب مجھ میں مزید انتظار کا یارا نہیں ! واضح رہے کہ انبیاء و رسل - کو اللہ تعالیٰ دنیا میں مزید رہنے یا کوچ کرنے سے متعلق اختیار عطا فرماتا تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ آخری ایام میں ایک دن جب حضور ﷺ کے مرض میں افاقہ ہواتو آپ ﷺ مسجد میں تشریف لے گئے۔ منبرپر فروکش ہوئے اور خطبہ دیا۔ اس کے بعد منبر سے نیچے تشریف لائے۔ ظہر کی نماز پڑھائی اور پھر منبر پر تشریف لے گئے اور چند اہم نصیحتیں فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا : ”ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ وہ یا تو دنیا کی چمک دمک اور زیب وزینت میں سے جو کچھ چاہے اللہ اسے دے دے یا اللہ کے پاس جو کچھ ہے اسے اختیار کرلے تو اس بندے نے اللہ کے پاس والی چیز کو اختیار کرلیا“۔ یہ بات سن کر ابوبکر رض رونے لگے اور فرمایا : ”ہم اپنے ماں باپ سمیت آپ ﷺ پر قربان !“ اس پر لوگوں کو تعجب ہوا کہ حضور ﷺ کیا ارشاد فرما رہے ہیں اور اس پر ابوبکر رض کیا کہہ رہے ہیں ! لیکن چند دن بعد واضح ہوا کہ جس بندے کو اختیار دیا گیا تھا وہ خود رسول اللہ ﷺ تھے اور ابوبکر صدیق رض صحابہ کرام رض میں سب سے زیادہ صاحب علم تھے۔ یہاں حضور ﷺ کے اس فرمان کا ذکر کرتے ہوئے میرے دل کی بات زبان پر آگئی ہے۔۔۔۔ وہ یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے خصوصی فضل سے مجھے حضور ﷺ کے قدموں میں پہنچا دیا تو میں حضور ﷺ سے شکوہ کرنے کی جسارت ضرور کروں گا کہ حضور ! آپ ﷺ نے بہت جلدی کی … حضور ﷺ ! مانا کہ ہجر و فراق کا ایک ایک لمحہ آپ ﷺ کے لیے مشکل تھا… مگر حضور ﷺ ! جو لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہوئے تھے وہ بھی تو آپ ﷺ کے فیضانِ نظر کے محتاج تھے… حضور ﷺ ! اگر تھوڑا سا وقت ان کو بھی مل جاتا تو… مہاجرین رض و انصار رض کی طرز پر ان کی تربیت بھی ہو جاتی…! ! !