8:53 ile 8:54 arasındaki ayetler grubu için bir tefsir okuyorsunuz
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت 53 ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ لَمْ یَکُ مُغَیِّرًا نِّعْمَۃً اَنْعَمَہَا عَلٰی قَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ لا اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کی طرف اپنا پیغمبر مبعوث کیا ‘ جس نے اللہ کی توحید اور اس کے احکام کے مطابق اس قوم کو دعوت دی۔ پیغمبر کی دعوت پر لبیک کہنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں سے نوازا ‘ ان پر اپنے انعامات و احسانات کی بارشیں کیں۔ پھر اپنے پیغمبر کے بعد ان لوگوں نے آہستہ آہستہ کفرو ضلالت کی روش اختیار کی اور توحید کی شاہراہ کو چھوڑ کر شرک کی پگڈنڈیاں اختیار کرلیں تو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں نے بھی ان سے منہ موڑ لیا ‘ انعامات کی جگہ اللہ کے عذاب نے لے لی اور یوں وہ قوم تباہ و برباد کردی گئی۔ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی پر سوار ہونے والے مؤمنین کی نسل سے ایک قوم وجود میں آئی۔ جب وہ قوم گمراہ ہوئی تو حضرت ہود علیہ السلام کو ان کی طرف بھیجا گیا۔ پھر حضرت ہود علیہ السلام پر ایمان لانے والوں کی نسل سے ایک قوم نے جنم لیا اور پھر جب وہ لوگ گمراہ ہوئے تو ان کی طرف حضرت صالح علیہ السلام مبعوث ہوئے۔ گویا ہر قوم اسی طرح وجود میں آئی ‘ مگر اللہ تعالیٰ نے کسی قوم سے اپنی نعمت اس وقت تک سلب نہیں کی جب تک کہ خود انہوں نے ہدایت کی راہ کو چھوڑ کر گمراہی اختیار نہیں کی۔ یہ مضمون بعد میں سورة الرعد آیت 11 میں بھی آئے گا۔ مولانا ظفر علی خان نے اس مضمون کو ایک خوبصورت شعر میں اس طرح ڈھالا ہے : ؂ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا !اس فلسفے کے مطابق جب کوئی قوم محنت کو اپنا شعار بنا لیتی ہے تو اس کے ظاہری حالات میں مثبت تبدیلی آتی ہے اور یوں اس کی تقدیر بدلتی ہے۔ صرف خوش فہمیوں wishful thinkings اور دعاؤں سے قوموں کی تقدیریں نہیں بدلا کرتیں ‘ اور قوم چونکہ افراد کا مجموعہ ہوتی ہے ‘ اس لیے تبدیلی کا آغاز افراد سے ہوتا ہے۔ پہلے چند افراد کی قلب ماہیت ہوتی ہے اور ان کی سوچ ‘ ان کے نظریات ‘ ان کے خیالات ‘ ان کے مقاصد ‘ ان کی دلچسپیاں اور ان کی امنگیں تبدیل ہوتی ہیں۔ جب ایسے پاک باطن لوگوں کی تعداد رفتہ رفتہ بڑھتی ہے اور وہ لوگ ایک طاقت اور قوت کے طور پر خود کو منظم کر کے باطل کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں تو طاغوتی طوفان اپنا رخ بدلنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یوں اہل حق کی قربانیوں سے نظام بدلتا ہے ‘ معاشرہ پھر سے راہ حق پر گامزن ہوتا ہے اور انقلاب کی سحر پر نور طلوع ہوتی ہے۔ لیکن یاد رکھیں اس انقلاب کے لیے فکری و عملی بنیاد اور اس کٹھن سفر میں زاد راہ کی فراہمی صرف اور صرف قرآنی تعلیمات سے ممکن ہے۔ اسی سے انسان کے اندر کی دنیا میں انقلاب آتا ہے۔ اسی اکسیر سے اس کی قلب ماہیت ہوتی ہے اور پھر مٹی کا یہ انبار یکایک شمشیر بےزنہار کا روپ دھار لیتا ہے۔ علامہ اقبالؔ نے اس لطیف نکتے کی وضاحت اس طرح کی ہے : ؂چوں بحاں در رفت جاں دیگر شود جاں چوں دیگر شد جہاں دیگر شود یعنی جب یہ قرآن کسی انسان کے دل کے اندر اتر جاتا ہے تو اس کے دل اور اس کی روح کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ اور ایک بندۂ مؤمن کے اندر کا یہی انقلاب بالآخر عالمی انقلاب کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔