undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت 6 فَلَنَسْءَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ وَلَنَسْءَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ ۔ یہ فلسفہ رسالت کا بہت اہم موضوع ہے جو اس آیت میں بڑی جلالی شان کے ساتھ آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی طرف رسول کو اس لیے بھیجتا ہے تاکہ وہ اسے خبردار کردے۔ یہ ایک بہت بھاری اور حساس ذمہ داری ہے جو رسول پر ڈالی جاتی ہے۔ اب اگر بالفرض رسول کی طرف سے اس میں ذرا بھی کوتاہی ہوگی تو قوم سے پہلے اس کی پکڑ ہوجائے گی۔ اس کی مثال یوں ہے کہ آپ نے ایک اہم پیغام دے کر کسی آدمی کو اپنے کسی دوست کے پاس بھیجا کہ وہ یہ کام کل تک ضرور کردے ورنہ بہت نقصان ہوگا ‘ لیکن آپ کے اس دوست نے وہ کام نہیں کیا اور آپ کا نقصان ہوگیا۔ اب آپ غصّے سے آگ بگولہ اپنے دوست کے پاس پہنچے اور کہا کہ تم نے میرے پیغام کے مطابق بروقت میرا کام کیوں نہیں کیا ؟ اب آپ کا دوست اگر جواباً یہ کہہ دے کہ اس کے پاس تو آپ کا پیغام لے کر کوئی آیا ہی نہیں تو اپنے دوست سے آپ کی ناراضی فوراً ختم ہوجائے گی ‘ کیونکہ اس نے کوتاہی نہیں کی ‘ اور آپ کو شدیدغصہ اس شخص پر آئے گا جس کو آپ نے پیغام دے کر بھیجا تھا۔ اب آپ اس سے باز پرس کریں گے کہ تم نے میرا اتنا اہم پیغام کیوں نہیں پہنچایا ؟ تم نے غیر ذمہ داری کا ثبوت دے کر میرا اتنا بڑا نقصان کردیا۔ اسی طرح کا معاملہ ہے اللہ ‘ رسول اور قوم کا۔ اللہ نے رسول کو پیغام بر بنا کر بھیجا۔ بالفرض اس پیغام کے پہنچانے میں رسول سے کوتاہی ہوجائے تو وہ جوابدہ ہوگا۔ ہاں اگر وہ پیغام پہنچا دے تو پھر وہ اپنی ذمہ داری سے بری ہوجائے گا۔ پھر اگر قوم اس پیغام پر عمل درآمد نہیں کرے گی تو وہ ذمہ دار ٹھہرے گی۔ چناچہ آخرت میں امتوں کا بھی محاسبہ ہونا ہے اور رسولوں کا بھی۔ امت سے جواب طلبی ہوگی کہ میں نے تمہاری طرف اپنا رسول بھیجا تھا تاکہ وہ تمہیں میرا پیغام پہنچا دے ‘ تم نے اس پیغام کو قبول کیا یا نہیں کیا ؟ اور مرسلین سے یہ پوچھا جائے گا کہ تم نے میرا پیغام پہنچایا یا نہیں ؟ اس کی ایک جھلک ہم سورة المائدۃ آیت 109 میں مَاذَآ اُجِبْتُمْ ط کے سوال میں اور پھر اللہ تعالیٰ کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ قیامت کے دن ہونے والے مکالمے کے ان الفاظ میں بھی دیکھ آئے ہیں : وَاِذْ قَال اللّٰہُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ءَ اَنْتَ قُلْتَ للنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَاُمِّیَ اِلٰہَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ط آیت 116 اور جب اللہ پوچھے گا کہ اے عیسیٰ ابن مریم کیا تم نے کہا تھا لوگوں سے کہ مجھے اور میری ماں کو بھی الٰہ بنا لینا اللہ کے علاوہ ؟ اب ذرا حجۃ الوداع 10 ہجری کے منظر کو ذہن میں لائیے۔ محمد رسول اللہ ﷺ ایک جم غفیر سے مخا طب ہیں۔ اس تاریخی موقع کے پس منظر میں آپ ﷺ کی 23 برس کی محنت شاقہ تھی ‘ جس کے نتیجے میں آپ ﷺ نے جزیرہ نمائے عرب کے لوگوں پر اتمام حجت کر کے دین کو غالب کردیا تھا۔ لہٰذا آپ ﷺ نے اس مجمع کو مخاطب کرکے فرمایا : اَلاَ ھَلْ بَلَّغْتُ ؟ لوگوسنو ! کیا میں نے پہنچا دیا ؟ اس پر پورے مجمع نے یک زبان ہو کر جواب دیا : نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَاَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ 1۔ ایک روایت میں الفاظ آتے ہیں : اِنَّا نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ الرِّسَالَۃَ وَاَدَّیْتَ الْاَمَانَۃَ وَنَصَحْتَ الْاُمَّۃَّ وَکَشَفْتَ الْغُمَّۃَ کہ ہاں ہم گواہ ہیں آپ ﷺ نے رسالت کا حق ادا کردیا ‘ آپ ﷺ نے امانت کا حق ادا کردیا یہ قرآن آپ ﷺ کے پاس اللہ کی امانت تھی جو آپ ﷺ نے ہم تک پہنچا دی ‘ آپ ﷺ نے امت کی خیر خواہی کا حق ادا کردیا اور آپ ﷺ نے گمراہی اور ضلالت کے اندھیروں کا پردہ چاک کردیا۔ حضور ﷺ نے تین دفعہ یہ سوال کیا اور تین دفعہ جواب لیا اور تینوں دفعہ انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھا کر پکارا : اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ ! اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ ! اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ ! اے اللہ تو بھی گواہ رہ ‘ یہ مان رہے ہیں کہ میں نے تیرا پیغام انہیں پہنچا دیا۔ اور پھر فرمایا : فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَاءِبَ 2 کہ اب پہنچائیں وہ لوگ جو یہاں موجود ہیں ان لوگوں کو جو یہاں موجود نہیں ہیں۔ گویا میرے کندھے سے یہ بوجھ اتر کر اب تمہارے کندھوں پر آگیا ہے۔ اگر میں صرف تمہاری طرف رسول بن کر آیا ہوتا تو بات آج پوری ہوگئی ہوتی ‘ مگر میں تو رسول ہوں تمام انسانوں کے لیے جو قیامت تک آئیں گے۔ چناچہ اب اس دعوت اور تبلیغ کو ان لوگوں تک پہنچانا امت کے ذمہ ہے۔ یہی وہ گواہی ہے جس کا منظر سورة النساء میں دکھایا گیا ہے : فَکَیْفَ اِذَا جِءْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَہِیْدٍ وَّجِءْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَآءِ شَہِیْدًا۔ ۔ پھر اس روز حجۃ الوداع کے موقع والی گواہی کا حوالہ بھی آئے گا کہ اے اللہ میں نے تو ان لوگوں کو تیرا پیغام پہنچا دیا تھا ‘ اب یہ ذمہ دار اور جواب دہ ہیں۔ چونکہ معاملہ ان پر کھول دیا گیا تھا ‘ لہٰذا اب یہ لوگ لاعلمی کے بہانے کا سہارا نہیں لے سکتے۔آیت 6 فَلَنَسْءَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ وَلَنَسْءَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ کی طرح اگلی آیت بھی اپنے موضوع کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔