حضرت نوح کی دعا سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے زمانہ میں بگاڑ اپنی آخری حد تک پہنچ چکا تھا۔ پورے معاشرے میں گمراہ عقائد و خیالات اس طرح چھا گئے تھے کہ جو بچہ اس معاشرہ میں پیدا ہو کر اٹھتا، وہ گمراہی کے خیالات لے کر اٹھتا۔ جب معاشرہ اس درجہ کو پہنچ جائے تو اس کے بعد اس کے لیے اس کے سوا کچھ اور مقدر نہیں ہوتا کہ ’’طوفان نوح‘‘ کے ذریعہ اس کا خاتمہ کردیا جائے۔