6:91 ile 6:92 arasındaki ayetler grubu için bir tefsir okuyorsunuz
وما قدروا الله حق قدره اذ قالوا ما انزل الله على بشر من شيء قل من انزل الكتاب الذي جاء به موسى نورا وهدى للناس تجعلونه قراطيس تبدونها وتخفون كثيرا وعلمتم ما لم تعلموا انتم ولا اباوكم قل الله ثم ذرهم في خوضهم يلعبون ٩١ وهاذا كتاب انزلناه مبارك مصدق الذي بين يديه ولتنذر ام القرى ومن حولها والذين يومنون بالاخرة يومنون به وهم على صلاتهم يحافظون ٩٢
وَمَا قَدَرُوا۟ ٱللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِۦٓ إِذْ قَالُوا۟ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ عَلَىٰ بَشَرٍۢ مِّن شَىْءٍۢ ۗ قُلْ مَنْ أَنزَلَ ٱلْكِتَـٰبَ ٱلَّذِى جَآءَ بِهِۦ مُوسَىٰ نُورًۭا وَهُدًۭى لِّلنَّاسِ ۖ تَجْعَلُونَهُۥ قَرَاطِيسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًۭا ۖ وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُوٓا۟ أَنتُمْ وَلَآ ءَابَآؤُكُمْ ۖ قُلِ ٱللَّهُ ۖ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِى خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ ٩١ وَهَـٰذَا كِتَـٰبٌ أَنزَلْنَـٰهُ مُبَارَكٌۭ مُّصَدِّقُ ٱلَّذِى بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنذِرَ أُمَّ ٱلْقُرَىٰ وَمَنْ حَوْلَهَا ۚ وَٱلَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِٱلْـَٔاخِرَةِ يُؤْمِنُونَ بِهِۦ ۖ وَهُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ ٩٢
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت مکہ کے لوگوں کے سامنے آئی تو ان کے کچھ لوگوں نے بعض یہود سے پوچھا کہ تمھارا اس بارے میں کیا خیال ہے۔ کیا محمد پر واقعی خدا کا کلام نازل ہوا ہے۔ یہود نے جواب دیا ’’خدا نے کسی بشر پر کچھ نازل نہیں کیا ہے‘‘۔ بظاہر یہ بات بڑی عجیب ہے۔ کیوں کہ یہود تو خود نبیوں کو ماننے والے تھے، اور اس طرح گویا وہ اقرار کررہے تھے کہ بشر پر خدا کا کلام اترتا ہے۔ مگر جب آدمی مخالفت میں اندھا ہوجائے تو وہ مخالف کی تردید کے جوش میں کبھی یہاں تک پہنچ جاتا ہے کہ اپنی مانی ہوئی باتوں کي تردید کرنے لگے۔

یہود کے اندر یہ ڈھٹائی اس لیے پیدا ہوئی کہ انھوں نے خدا کی کتاب کو ورق ورق کردیا تھا۔ وہ خدا کی تعلیمات کے کچھ حصے کو سامنے لاتے اور بقیہ کو کتاب میں بند رکھتے۔ مثلاً وہ انعام والی آیتوں کو خوب سنتے سناتے اور ان آیتوں کو چھوڑ دیتے جن میں وہ اعمال بتائے گئے ہیں جن کے کرنے سے کسی کو مذکورہ انعام ملتاہے۔ وہ ایسی آیتوں کا خصوصی تذکرہ کرتے جن سے ان کی شور وغل کی سیاست کی تائید نکلتی ہو اور ان آیتوں کو نظر انداز کردیتے جن میں خاموش اصلاح کے احکام ديے گئے ہوں۔ وہ ایسی آیتوں کے درس میں بڑا اہتمام کرتے جن میں ان کے لیے لفظی موشگافیوں کا کمال دکھانے کا موقع ہو، مگر ان آیتوں سے سرسری گزر جاتے جن میں دین کے ابدی حقائق بیان كيے گئے ہیں۔وہ ایسی آیتوں کا خوب چرچا کرتے جن سے اپني فضیلت نکلتی ہو اور ان آیتوں سے بے توجہی برتتے ہیں جن سے ان کی ذمہ داریاں معلوم ہوتی ہیں۔ جو لوگ خدا کی کتاب کو اس طرح ’’ورق ورق‘‘ کریں ان کے اندر فطری طورپر ڈھٹائی آجاتی ہے۔ وہ غیر سنجیدہ بحثیں کرتے ہیں، متضاد بیانات دیتے ہیں۔ ان سے کسی حقیقی تعاون کی امید نہیں کی جاسکتی۔ جو لوگ خدا کی کتاب کے ساتھ انصاف نہ کریں، وہ انسانوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں کیسے انصاف کرسکتے ہیں۔

دین کی دعوت اصلاً لوگوں کو ہوشیار کرنے کی دعوت ہے۔ اس قسم کی دعوت خواہ کتنے ہی کامل انسان کی طرف سے پیش کی جائے وہ سننے والے کے دل میں اس وقت جگہ کرے گی جب کہ وہ اپنے سینہ میںایک اندیشہ ناک دل رکھتا ہو اورآخرت کے معاملہ کو ایک سنجیدہ معاملہ سمجھتا ہو۔ سننے والے میں اگر یہ ابتدائی مادہ موجود نہ ہو تو سنانے والا اس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔