6:63 ile 6:64 arasındaki ayetler grubu için bir tefsir okuyorsunuz
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

(آیت) ” نمبر 63 تا 64۔

خطرات کا تصور اور ہولناک لمحات کی یاد بعض اوقات خود انسانوں کو بھی راہ راست پر لے آتی ہے ۔ اس سے پتھر دل بھی موم ہوجاتے ہیں ۔ اس سے انسان کو یہ شعور دیا جاتا ہے کہ انسان بہت ہی ضعیف ہے اور اسے ہر وقت اللہ کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے ‘ جس کے نتیجے میں اس کی مشکلات دور ہوجاتی ہیں اور اسے نعمت الہیہ بشکل نجات دستیاب ہوتی ہے ۔

(آیت) ” قُلْ مَن یُنَجِّیْکُم مِّن ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَہُ تَضَرُّعاً وَخُفْیَۃً لَّئِنْ أَنجَانَا مِنْ ہَـذِہِ لَنَکُونَنَّ مِنَ الشَّاکِرِیْنَ (63)

(اے نبی ﷺ ان سے پوچھو ‘ صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں کون تمہیں خطرات سے بچاتا ہے ‘ کون ہے جس سے تم (مصیبت کے وقت) گڑ گڑا کر اور چپکے چپکے دعائیں مانگتے ہو ؟ کس سے کہتے ہو کہ اگر اس بلا سے اس نے ہم کو بچا لیا تو ہم ضرور شکر گزار ہوں گے ۔

یہ وہ نفسیاتی تجربہ ہے جو ہر اس شخص کو درپیش ہوا ہے جو کبھی مشکلات میں گھرا ہے یا جس نے مشکلات کے اندر گھرے ہوئے لوگوں کو دیکھا ہے ‘ کیونکہ خشکی اور سمندر دونوں میں انسان اس قسم کی مشکلات سے دو چار ہوتا رہتا ہے ۔ ضروری نہیں کہ اندھیروں کا تحقق رات ہی میں ہو ‘ اس لئے کہ لاچاری بھی ایک اندھیرا ہے ۔ خطرہ بھی اندھیرا ہے ۔ خشکی اور سمندر کے غیبی واقعات جن کے انتظار میں پوری دنیا کی نظریں لگی ہوتی ہیں یہ بھی ظلمات ہوتے ہیں ۔ جب بھی انسان خشکی اور سمندر کی ان ظلمتوں میں گھرتا ہے تو اس کائنات میں انہیں صرف اللہ ہی حقیقی متصرف نظر آتا ہے ۔ ایسے حالات میں انسان بڑی عاجزی ‘ یکسوئی اور نہایت ہی راز دارانہ طور پر صرف اللہ ہی کے سامنے دست بدعاء ہوتا ہے ۔ ایسے حالات میں فطرت انسانی اپنی اصل شکل میں تمام پردوں سے باہر آکر عیاں ہوتی ہے ۔ اس وقت فطرت کی گہرائیوں میں جو حقیقت پوشیدہ ہوتی ہے وہ سامنے آتی ہے اور وہ حقیقت ہوتی ہے اللہ وحدہ لاشریک کی حاکمیت ۔ انسان حق تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اب اس کے ساتھ کسی کو شریک بھی نہیں ٹھہراتا ۔ اس وقت انسان کو معلوم ہوجاتا ہے کہ شرکیہ تصورات کس قدر بودے ہوتے ہیں ۔ اب شرک کا نام ونشان نہیں ہوتا اور جو لوگ اس کرب والم میں مبتلا ہوتے ہیں ان کی کیفیت یہ ہوتی ہے : ” اگر اس بلا سے اس نے ہم کو بچا لیا تو ہم ضرور شکر گزار ہوں گے ؟ “ اللہ تعالیٰ اس موقع پر حضور ﷺ کو حکم دیتے ہیں کہ وہ ان لوگوں کو اصل حقیقت کی طرف متوجہ کریں :

(آیت) ” قُلِ اللّہُ یُنَجِّیْکُم مِّنْہَا وَمِن کُلِّ کَرْبٍ ثُمَّ أَنتُمْ تُشْرِکُونَ (64)

” کہو ‘ اللہ تمہیں اس سے اور ہر تکلیف سے نجات دیتا ہے ۔ پھر تم دوسروں کو اس کا شریک ٹھہراتے ہو ۔ اس کے اندر ہی انہیں یہ بھی بتا دیا جاتا ہے کہ وہ پھر بھی شرک جیسے منکر کا ارتکاب کرتے ہیں اور تعجب خیز انداز میں الٹے پھرتے ہیں ۔

یہاں انسانوں کو یہ صورت حال یاد دلائی جاتی ہے کہ اس نجات کے بعد بھی دوبارہ وہ ایسے ہی مشکل حالات میں مبتلا ہو سکتے ہیں ۔ یہ بات نہیں ہے کہ یہ مشکلات صرف ایک بار ہی آنے والی تھیں ۔ یہ باری ان پر سے گزر گئی اور اب گویا وہ اللہ کے قبضہ قدرت سے نکل گئے ہیں ۔ اگر وہ ایسا سمجھتے ہیں تو یہ انکی بھول ہے ۔ اس سلسلے میں ذیل کی آیت ملاحظہ ہو :