ولو تقول .................... حجزین
ان آیات کا مطلب یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ خود تمہارے اقوال کے مطابق بھی صادق وامین ہیں۔ اور اگر انہوں نے اس کلام سے کوئی بات اپنی طرف سے بنائی ہوتی تو ہم اس کو اپنی گرفت میں لے لیتے اور چونکہ آپ پر خدا کی پکڑ نہیں آئی ، اس لئے لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ آپ سچے ہیں۔ یہ تو تھا ایک مثبت استدلالی نظریہ اور ثبوت ، لیکن جس انداز میں یہ بات کی گئی ہے وہ ایک مکمل اور متحرک منظر کا انداز ہے۔ مثلاً یوں نظر آتا ہے کہ جس طرح ایک قوی تر انسان باز پرس کے لئے کسی کو پکڑ لے اپنے دائیں ہاتھ سے ، اور پھر اس کی رگ جان کاٹ دے۔ یہ بھی نہایت ہی سخت اور متاثر کردینے والا منظر ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی قدرت کس قدر عظیم ہے اور اس کے سامنے انسان کس قدر عاجز ہے۔ سب کے سب انسان اس کے سامنے ہیچ ہیں۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی نظریہ حیات ، اسلامی عقائد ، دین سے استدلالی اور تمام دینی مباحث ، نہایت ذمہ داری کا کام ہے۔ اور اس میں ہر شخص کو ذمہ داری سے اقدام و کلام کرنا چاہئے ، جبکہ حضرت محمد ﷺ کو یہ دھمکی دی گئی ہے تو ان لوگوں کا کیا حال ہوگا ، جو اسلام کے بارے میں لاپرواہ ہوکر کلام کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ نہایت خوف ، ڈر اور احتیاط اور خضوع وخشوع کا مقام ہے اور محتاط رہنے کا کلام ہے۔