5:87 ile 5:89 arasındaki ayetler grubu için bir tefsir okuyorsunuz
يا ايها الذين امنوا لا تحرموا طيبات ما احل الله لكم ولا تعتدوا ان الله لا يحب المعتدين ٨٧ وكلوا مما رزقكم الله حلالا طيبا واتقوا الله الذي انتم به مومنون ٨٨ لا يواخذكم الله باللغو في ايمانكم ولاكن يواخذكم بما عقدتم الايمان فكفارته اطعام عشرة مساكين من اوسط ما تطعمون اهليكم او كسوتهم او تحرير رقبة فمن لم يجد فصيام ثلاثة ايام ذالك كفارة ايمانكم اذا حلفتم واحفظوا ايمانكم كذالك يبين الله لكم اياته لعلكم تشكرون ٨٩
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تُحَرِّمُوا۟ طَيِّبَـٰتِ مَآ أَحَلَّ ٱللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوٓا۟ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلْمُعْتَدِينَ ٨٧ وَكُلُوا۟ مِمَّا رَزَقَكُمُ ٱللَّهُ حَلَـٰلًۭا طَيِّبًۭا ۚ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ ٱلَّذِىٓ أَنتُم بِهِۦ مُؤْمِنُونَ ٨٨ لَا يُؤَاخِذُكُمُ ٱللَّهُ بِٱللَّغْوِ فِىٓ أَيْمَـٰنِكُمْ وَلَـٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ ٱلْأَيْمَـٰنَ ۖ فَكَفَّـٰرَتُهُۥٓ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَـٰكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍۢ ۖ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَـٰثَةِ أَيَّامٍۢ ۚ ذَٰلِكَ كَفَّـٰرَةُ أَيْمَـٰنِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ ۚ وَٱحْفَظُوٓا۟ أَيْمَـٰنَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمْ ءَايَـٰتِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ٨٩
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

درس نمبر 53 تشریح آیات :

87۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 108۔

(آیت) ” نمبر 87 تا 89۔

” اے ایمان لانے والو ! تمہارے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ تم انسان اور اللہ کے غلام ہوتے ہوئے ‘ اللہ کی الوہیت اور حاکمیت کے حقوق پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش نہ کرو ‘ اس لئے تمہارے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ کاموں اور اشیاء کو حرام قرار دو ‘ خصوصا پاکیزہ چیزوں کو۔ اس لئے تم پاک چیزوں کے کھانے اور پینے سے اس طرح نہ رکو کہ تم ان کو اپنے لئے حرام قرار دے لو ۔ اس لئے کہ اللہ نے یہ پاک چیزیں تمہارے لئے ہی تو پیدا کی ہیں اور پھر یہ کہ حلال و حرام کے حدود کا تعین کرنے والا تو اللہ ہی ہے ۔

(آیت) ” یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تُحَرِّمُواْ طَیِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللّہُ لَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّہَ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ (87) وَکُلُواْ مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّہُ حَلاَلاً طَیِّباً وَاتَّقُواْ اللّہَ الَّذِیَ أَنتُم بِہِ مُؤْمِنُونَ (88)

” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ جو پاک چیزیں اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں انہیں حرام نہ کرلو اور حد سے تجاوز نہ کرو ‘ اللہ کو زیادتی کرنے والے سخت ناپسند ہیں ۔ جو کچھ حلال وطیب رزق اللہ نے تم کو دیا ہے اسے کھاؤ پیو اور اس اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہو جس پر تم ایمان لائے ہو ۔ A

” حقیقت یہ ہے کہ قانون سازی کے مسئلے کا تعلق خاص مسئلہ حاکمیت اور الوہیت کے ساتھ ہے ۔ قانون سازی کا حق اللہ کی حاکمیت کے ساتھ مخصوص اس لئے ہے کہ اللہ ہی انسانوں کا مالک اور خالق ہے اور وہی ہے جو انسانوں کو رزق فراہم کرتا ہے ۔ اس لئے یہ حق صرف اللہ کا ہے کہ وہ اپنی مخلوق کے لئے ‘ اپنے پیدا کردہ رزق میں سے بعض چیزوں کو حلال کر دے اور بعض کو حرام کر دے ۔ یہ ایک ایسی دلیل ہے جس کو انسانوں کی عقل بڑی آسانی سے مان لیتی ہے ۔ انسانوں کے نزدیک بھی کسی چیز کا مالک ہی یہ حق رکھتا ہے کہ وہ اپنی ممو کہ چیز میں جس طرح چاہے تصرف کرے اور جو شخص بھی کسی کے حق ملکیت پر دست درازی کرتا ہے تو اسے ظلم و زیادتی کا مرتکب تصور کیا جاتا ہے ۔ جو لوگ ایمان لا چکے ‘ ظاہر ہے کہ ان سے یہ توقع نہیں ہے کہ وہ اللہ کے حقوق پر دست درازی کریں گے اس لئے کہ اللہ پر ایمان اور پھر اللہ سے بغاوت دونوں ایک دل میں کس طرح جمع ہو سکتے ہیں ۔

یہ ہے وہ مسئلہ جسے یہ دو آیات ایسے واضح اسلوب میں پیش کرتی ہیں کوئی معقول شخص اس بارے میں کوئی مباحثہ اور مجادلہ نہیں کرسکتا اس لئے کہ اللہ دست درازی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ یہ مسئلہ ایک عام قاعدے اور اصول کو طے کرتا ہے کہ تمام لوگ اللہ کے بندے اور غلام ہیں اور اس مسئلے کے مطابق اپنا طرز عمل ڈھالنا تقاضائے ایمان ہے ۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ یہ دو آیات اور ان سے آگلی آیت ایک خاص واقعہ میں نازل ہوئیں ۔ یہ واقعہ حضور ﷺ کے دور میں پیش آیا لیکن آیت عام ہے اور اسباب نزول کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ اسباب نزول کے ذریعے فہم قرآن میں اچھی مدد ملتی ہے ۔

ابن جریر نے نقل کیا ہے کہ ایک دن حضور ﷺ تشریف فرما تھے ۔ آپ نے لوگوں کو یاد دہانی کی ۔ آپ اٹھ کر چلے گئے اور آپ نے اس دن انہیں بہت نہ ڈرایا ۔ آپ کے جو ساتھی بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے کہا کہ ہم لوگ کچھ باتیں اور اعمال اپنی طرف سے کیوں نہ شروع کردیں ‘ نصاری نے تو ایسا کیا کہ بعض چیزوں کو اپنے اوپر حرام کرلیا ‘ ہمیں بھی چاہئے کہ ہم اپنے اوپر بعض چیزیں حرام کرلیں ۔ بعض نے کہا کہ وہ گوشت اور سرین نہ کھائے گا ۔ بعض نے کہا کہ وہ دن کو نہ کھائے گا ۔ بعض نے اپنے اوپر عورتیں حرام کرلیں ‘ یہ بات رسول اللہ ﷺ تک پہنچی ۔ آپ نے فرمایا کہ لوگ بھی عجیب ہیں کوئی اپنے اوپر عورتوں کو حرام کرتا ہے کوئی کھانا حرام کرتا ہے کوئی نیند حرام کرتا ہے ۔ خبردار میں تو سوتا بھی ہوں کھڑا بھی ہوتا ہوں ‘ روزے بھی رکھتا ہوں ‘ کھاتا بھی ہوں ‘ عورتوں کے ساتھ نکاح بھی کرتا ہوں ‘ پس جو شخص میری اس سنت سے منہ موڑے گا وہ مجھ سے نہ ہوگا “۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں ۔

(آیت) ” یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تُحَرِّمُواْ طَیِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللّہُ لَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ ) صحیحین میں حضرت انس ؓ سے ایک روایت منقول ہے وہ بھی ابن جریر کی روایت کی موید ہے ۔ انس ؓ فرماتے ہیں کہ تین افراد ازواج مطہرات کے گھر آئے ‘ انہوں نے حضرت نبی ﷺ کی عبادت کے بارے میں پوچھا ۔ جب ان کو حضور ﷺ کی عبادات کے بارے میں معلومات دی گئیں تو گویا انہوں نے ان عبادات کو کم سمجھا ۔ انہوں نے کہا ہم حضور ﷺ کے رتبے تک کب پہنچ سکتے ہیں ؟ اللہ نے حضور ﷺ کے سابقہ اور آیندہ تمام گناہوں کو معاف کردیا ہے ۔ ایک نے کہا میں تو تمام رات نماز پڑھوں گا ‘ دوسرے نے کہا کہ میں تو ہمیشہ کے لئے روزے رکھوں گا اور کبھی افطار نہ کروں گا ۔ تیسرے نے کہا میں تو کبھی بھی عورتوں کے پاس نہ جاؤں گا اور نہ نکاح کروں گا ۔ حضور ﷺ کو جب علم ہوا تو آپ ان کے پاس آئے اور ان سے پوچھا کہ تم لوگ ہو جنہوں نے یہ یہ باتیں کیں ۔ خدا کی قسم میں تم سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ متقی ہوں لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں ‘ نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور ان میں عورتوں کے ساتھ نکاح بھی کرتا ہوں ۔ لہذا جو میری سنت سے ہٹا وہ مجھ سے نہ ہوگا ۔ “

ترمذی نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص حضور کے پاس آیا اور کہا حضور میں جب گوشت کھاتا ہوں تو مجھ پر شہوت غالب آجاتی ہے اور میں عورتوں کے لئے اٹھتا ہوں اس لئے میں نے اپنے اوپر گوشت حرام کرلیا ہے ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔

(آیت) ” یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تُحَرِّمُواْ طَیِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللّہُ لَکُمْ ) اب رہی وہ آیت جس میں قسموں کا ذکر ہے اور جو ان دو آیات کے بعد آتی ہے تو وہ بھی ایسے ہی حالات میں ہدایت دیتی ہیں ۔

(آیت) ” لاَ یُؤَاخِذُکُمُ اللّہُ بِاللَّغْوِ فِیْ أَیْْمَانِکُمْ وَلَـکِن یُؤَاخِذُکُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الأَیْْمَانَ فَکَفَّارَتُہُ إِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسَاکِیْنَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَہْلِیْکُمْ أَوْ کِسْوَتُہُمْ أَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ فَمَن لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ ذَلِکَ کَفَّارَۃُ أَیْْمَانِکُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُواْ أَیْْمَانَکُمْ کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّہُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ (89) تم لوگ جو مہمل قسمیں کھالیتے ہو ‘ ان پر اللہ گرفت نہیں کرتا ‘ مگر جو قسمیں تم جان بوجھ کر کھاتے ہو اس پر وہ ضرور تم سے مواخذہ کرے گا ۔ (ایسی قسم توڑنے کا) کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو وہ اوسط درجے کا کھانا کھلاؤ جو تم اپنے بال بچوں کو کھلاتے ہو ‘ یا انہیں کپڑے پہناؤ یا ایک غلام آزاد کرو ‘ اور جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو ‘ وہ تین دن کے روزے رکھے ۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب کہ تم قسم کھا کر توڑ دو ۔ اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو ، اس طرح اللہ اپنے احکام تمہارے لئے واضح کرتا ہے شاید کہ تم شکر ادا کرو ۔ “

یہ آیت ایسے حالات کے لئے ہے کہ کوئی مباح چیزوں کے استعمال کرنے کے خلاف حلف اٹھالے مثلا جن تین افراد نے قسم اٹھالی تھی کہ وہ یہ یہ کام نہیں کریں گے ‘ اور انہیں رسول اللہ ﷺ نے قسم کو جاری رکھنے سے منع کردیا تھا ۔ اور قرآن نے ان کو اس بات سے روک دیا تھا کہ وہ اپنے لئے حلال و حرام خود مقرر نہیں کرسکتے ۔ یہ ان کا کام نہیں ہے ۔ یہ تو اس اللہ کا کام ہے جس پر وہ ایمان لائے ہیں ۔ اس طرح یہ ان تمام صورتوں کے لئے ہدایت ہے جن میں کوئی کسی اچھے کام سے بذریعہ حلف اپنے آپ کو روک لیتا ہے ۔ اس لئے کہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی نیک کام کے نہ کرنے کی قسم اٹھاتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ نیک کام جاری رکھے اور قسم توڑنے کا کفارہ ادا کرے جس کی تفصیلات اس آیت میں دی گئی ہیں ۔

حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کا سبب یہ ہوا کہ جن لوگوں نے اپنے اوپر بعض کھانے ‘ بعض لباس اور عورتوں کے ساتھ نکاح حرام کرلیا تھا ‘ انہوں نے اس پر حلف بھی اٹھایا تھا ۔ جب یہ آیت نازل ہوئی ” اللہ کی پاک چیزیں اپنے اوپر حرام نہ کرو “ تو انہوں نے پوچھا کہ ہماری قسموں کا کیا بنے گا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ حکم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر لغو قسموں کے بارے میں کوئی مواخذہ نہیں کرتا ۔ یعنی محض زبان پر لفظ قسم جاری ہوجائے لیکن دل سے پختہ ارادہ قسم نہ ہو ‘ البتہ اللہ تعالیٰ جانب سے حکم یہ ہے کہ خواہ مخواہ ہر بات پر اللہ کی قسم نہ اٹھائی جائے ‘ اس لئے کہ اللہ کی قسم کا کچھ تو احترام ہونا چاہئے ۔ اللہ کی قسم کا وقار ہونا چاہئے اس لئے لغو قسم بھی بار بار اٹھانا ناپسندیدہ ہے ۔ رہی وہ سچی قسم جو قصدا ہوتی ہے اور اس کے پیچھے پختہ ارادہ ہوتا ہے ٗ کوئی کام کرنے یا نہ کرنے کا تو وہ لغو کی طرف معاف نہیں ہے ۔ اس پر کفارہ واجب ہے اور یہ آیت اسی کو بیان کرتی ہے ۔ ” سچی قسموں کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلاؤ یا انہیں کپڑے پہناؤ یا ایک غلام آزاد کرو اور جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ تین دن روزے رکھے ۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے ۔ اگر تم قسم کھا کر توڑ دو ۔ “

دس مسکینوں کے لئے اوسط درجے کا کھانا ایسا ہوگا کہ قسم اٹھانے والا جس کھانا اپنے اہل و عیال کو دیتا ہے ۔ اوسط کا مفہوم احسن بھی ہو سکتا ہے اور متوسط بھی ہو سکتا ہے کیونکہ لفظ اوسط احسن اور متوسط دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ اوسط سے دونوں مفہوم مراد ہو سکتے ہیں کیونکہ اسلام کے پیمانے میں اوسط ہی احسن ہوتا ہے ۔

(آیت) ” (اوکسوتھم) سے مراد یہی ہے کہ دس مسکینوں کو اوسط درجے کی پوشاک پہنائی جائے یا ایک غلام آزاد کیا جائے اور یہاں اس بات کی تصریح نہیں کی گئی کہ غلام کو مومن ہونا چاہئے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہوا ہے ۔ ہم تو فی ظلال القرآن میں فقہی اختلافات کا ذکر نہیں کرتے ۔ اگر استطاعت نہ ہو تو پھر تین روزے رکھے ۔ یہ اس صورت میں ہوں گے کہ دوسرے بیان کردہ کفارات میں سے کسی کی ادائیگی ممکن نہ ہو ۔ اس طرح یہ تین روزے مسلسل ہوں گے یا مسلسل نہ ہوں گے ‘ اس بارے میں بھی فقہی اختلافات ہوئے ہیں اس لئے کہ یہاں متتابعات کی تصریح نہیں ہے ۔ فی ظلال القرآن میں ہمارے طریقہ کار میں فقہی تفصیلات میں جانا ممکن نہیں ہے ۔ اگر کسی کو شوق ہو تو کتب فقہ میں تلاش کرے ۔ تمام فقہی اختلافات اس اصول کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ کفارہ اس لئے عائد کیا گیا ہے کہ حالف نے پختہ عقد کو توڑا ہے ۔ دوسرے یہ کہ قسموں کا ہلکا نہ سمجھا جائے اس لئے کہ قسمیں بھی دراصل ایک عہد ہوتی ہیں اور اللہ کا حکم یہ ہے کہ عقد اور عہد کو پورا کیا جائے ۔ اور اگر صورت یہ ہو کہ کوئی قسم اٹھا لے اور جس بات سے اس نے قسم اٹھائی ہے وہ اچھا کام ہے تو اس پر فرض ہے کہ قسم توڑے اور اچھے کام کو جاری رکھے ۔ اور اگر اس نے ایسی قسم اٹھالی ہے جس میں اس کا کوئی حق نہیں ہے مثلا حلال کرنا یا حرام کرنا تو اس پر فرض ہے کہ وہ قسم توڑ دے اور کفارہ ادا کرے ۔

اب ہم اس اصل موضوع کی طرف آتے ہیں جس کی وجہ سے یہ آیات نازل ہوئی ہیں ۔ ان آیات کے اسباب نزول کے زاوے سے دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ یہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ نے جن چیزوں کو حلال قرار دیا ہے تو وہ طیب ہیں اور جن چیزوں کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے تو جان لو کہ وہ خبیث اور ناپاک ہیں ۔ انسان کو یہ حق نہین ہے کہ وہ اپنے لئے وہ کچھ اختیار کرے جو اللہ نے اس کے لئے اختیار نہیں کیا ہے اور اس کی دو وجوہات ہیں۔

ایک یہ ہے کہ حرام و حلال کے قیود مقرر کرنا اللہ کے خصوصی حقوق میں سے ہے ‘ جو رازق ہے ۔ جب رازق وہ ہے تو اس رزق میں تحریم وتحلیل بھی اسی کا کام ہے ۔ اگر کوئی اللہ کے اس حق کو تسلیم نہیں کرتا تو گویا وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق پر دست درازی کرتا ہے ۔ اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا اور نہ اس طرح ایمان درست ہوسکتا ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ نے طیبات کو حلال قرار دیا ہے لہذا کسی کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنے اوپر پاکیزہ چیزوں کو حرام کرلے اس لئے کہ وہ چیزیں اس شخص کے لئے بھی مفید ہیں اور اس کرہ ارض پر زندگی کے تسلسل کے لئے بھی مفید ہیں ۔

انسان کی سوچ وبصیرت وہاں تک نہیں پہنچ سکتی جہاں تک علیم وخبیر کی بصیرت کی رسائی ہے جس نے ان طیبات کو حلال قرار دیا ہے ۔ اگر ان طیبات میں کوئی خرابی ہوتی تو اللہ اس سے اپنے بندوں کو ضرور بچاتا ۔ اگر ان کے حرام کردینے میں کوئی بھلائی ہوتی تو اللہ تعالیٰ ان کو حلال ہی نہ کرتا ۔ یہ دین تو آیا ہی اس لئے ہے کہ خیر ‘ بھلائی اور بہتری کو روبکار لائے اور انسانیت کی تمام قوتوں کے درمیان مکمل ہم آہنگی اور توازن قائم کرے ۔ اسلام انسانی فطرت کی ضروریات میں سے کسی ضرورت سے غافل نہیں ہے اور نہ اس نے انسان کی تعمیری قوتوں میں سے کسی قوت کو مہمل چھوڑا ہے ۔ اسلام نے وسط کو اختیار کیا ہے اور جادہ مستقیم پر رواں دواں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے رہبانیت کے ساتھ جنگ کی ‘ اس لئے کہ رہبانیت کا مقصد فطرت کشی تھا ۔ اس سے زندگی کی نشوونمارک رہی تھی حالانکہ اللہ کی اسکیم یہ تھی کہ کرہ ارض پر زندگی کو نشوونما حاصل ہو ‘ اور طیبات کو حرام کرنے سے اسلام نے اس لئے منع کیا کہ طیبات موجب ترقی حیات ہیں جن سے اس دنیا میں زندگی کی تجدید ہوتی چلی جاتی ہے ۔ اللہ نے اس زندگی کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ تسلسل سے رہے اور اللہ کے نظام حیات کے مطابق اس کی تجدید ہوتی رہے ۔ رہبانیت جو طیبات کو حرام قرار دیتی ہے وہ اسلامی نظام حیات کی اسکیم کے ساتھ متصادم ہے ۔ رہبانیت انسانیت کو ایک متعین مقام پر روک دیتی ہے اور یہ رکاوٹ وہ بلندی اور علو مرتبت کے نام سے پیدا کرتی ہے حالانکہ بلندی اور علو شان نظام حیات کے اندر داخل ہیں جو ایک ایسا نظام ہے جس کے اندر دواعی فطرت پوری طرح موجود ہیں اور یہ علم الہی کے مطابق رکھے گئے ہیں۔

کسی آیت کے نزول کے مخصوص واقعات اس آیت کو ان حالات کے اندر محدود نہیں کردیتے ۔ آیت بہرحال عام رہتی ہے اور آیت کی یہ عمومیت بتاتی ہے کہ قانون سازی کے اندر بھی حلال و حرام کے حدود وقیود مقرر کرنا اللہ ہی کا کام ہے اور یہ بات صرف کھانے اور پینے تک محدود نہیں ہے یا نکاح تک محدود نہیں ہے ۔ زندگی کے تمام امور میں یہ حق اللہ کو حاصل ہے ‘ شریعت کو حاصل ہے ۔

ہم اس مفہوم پر بار بار زور اس لئے دے رہے ہیں کہ ایک طویل عرصہ گزر گیا ہے کہ لوگوں نے اسلام کو زندگی کے عملی دھارے سے نکال دیا ہے ‘ حالانکہ اسلام کی شان یہ ہے کہ وہ پوری زندگی پر حکمران ہو ۔ حلال و حرام کے الفاظ اور ان کے پر تو کو محدود کردیا گیا ہے اور اب اس کے وہ معنی نہیں لئے جاتے جو قرآن کو مطلوب تھے ۔ لوگوں کے ذہنوں میں اب حلال و حرام کا مفہوم صرف ذبیحوں کا مفہوم صرف ذبیحوں ‘ کھانے ‘ پینے کی چیزوں ‘ لباسوں اور نکاح کے اندر محدود ہوگیا ہے ۔ لوگ عموما حلال و حرام کے متعلق صرف انہی باتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ کیا حلال ہے ‘ اور کیا حرام ہے ؟ رہے وہ عمومی اور بڑے بڑے معاملات تو انکے بارے فتوی وہ جدید دساتیر اور جدید قوانین سے پوچھتے ہیں جو انہوں نے شریعت کی جگہ جاری کردیئے ہیں ۔ غرض تمام اجتماعی معاملات میں ‘ تمام سیاسی نظاموں کے بارے میں ‘ تمام بین الاقوامی معاملات میں اور اللہ کے حق حاکمیت اور الوہیت کے بارے میں اب لوگ اسلام سے فتوی طلب نہیں کرتے ۔ یاد رہے کہ اسلام ایک مکمل منہاج حیات ہے جو شخص پورے پورے اسلام کا اتباع کرے گا وہی اللہ کے دین میں ہوگا اور جو شخص کسی ایک بھی معاملے میں شریعت کو چھوڑ کو کسی دوسرے قانون کی اطاعت کرے گا تو وہ دین سے خارج ہوجائے گا ۔ چاہے وہ ہزار بار اسلامی عقیدے کا اظہار کرے اور یہ اعلان کرے کہ وہ مسلمان ہے ‘ اس لئے کہ اس کے اعلان اسلام کو اس کا یہ عمل جھٹلا دیتا ہے ۔ جب وہ اللہ کی شریعت کو چھوڑ کر کسی اور قانون کا اتباع کرتا ہے اور اس طرح وہ دین اسلام سے خارج ہوجاتا ہے ۔

یہ ہے وہ اصول اعظم جس کا تعین یہ آیات کرتی ہیں ‘ اسے ایمان کا مسئلہ قرار دیتی ہیں ‘ اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرے تو اسے اللہ کے حقوق پر دست درازی قرار دیتی ہیں ‘ اور یہی ہے ان آیات کا مفہوم و مدعا ۔ یہی مفہوم اس دین کی سنجیدگی اور قرآن کریم کی سنجیدگی کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے اور اسی کے مطابق الوہیت کا مفہوم اور معنی حقیقی روپ اختیار کرتا ہے ۔

اسی سلسلہ قانون سازی میں جوے اور شراب کے بارے میں آخری اور قطعی حکم آجاتا ہے تاکہ جماعت مسلمہ کی تربیت اور اسے جاہلیت کی تمام آلودگیوں سے پاک کردیا جائے ‘ اسے جاہلیت کی گندی اجتماعی عادات سے پاک کردیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ ہی آستانوں اور پانسوں کو بھی حرام قرار دے دیا جاتا ہے ۔ اس لئے کہ یہ بھی شرکیہ افعال ہیں ۔