ولا توتوا السفهاء اموالكم التي جعل الله لكم قياما وارزقوهم فيها واكسوهم وقولوا لهم قولا معروفا ٥
وَلَا تُؤْتُوا۟ ٱلسُّفَهَآءَ أَمْوَٰلَكُمُ ٱلَّتِى جَعَلَ ٱللَّهُ لَكُمْ قِيَـٰمًۭا وَٱرْزُقُوهُمْ فِيهَا وَٱكْسُوهُمْ وَقُولُوا۟ لَهُمْ قَوْلًۭا مَّعْرُوفًۭا ٥
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

(آیت) ” ولا توتوا السفہآء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیما وارزقوھم فیھا واکسوھم وقولوا لھم قولا معروفا “۔ (5)

نادانی اور دانائی کا پتہ بلوغ کے بعد چل جاتا ہے ۔ بالعموم نادان اور دانا کے درمیان ہو ہی جاتی ہے ۔ اس لئے اس بات کی ضرورت نہیں ہوتی کہ قانون کے اندر اس کیلئے کوئی فارمولا وضع کردیا جائے ، ہر خاندان اس بات کی تمیز اچھی طرح کرلیتا ہے کہ اس کے اندر نادان کون ہے اور دانا کون ہے ۔ اسے اچھی طرح تجربہ ہوتا ہے کہ یہ راشد ہے اور یہ سفیہ ہے نیز سوسائٹی سے بھی کسی شخص کے معاملات اور تصرفات پوشیدہ نہیں ہوتے ۔ لہذا جانچ پڑتال اس بات کی ہوگی کہ یتیم بالغ ہوگیا ہے یا نہیں ۔ یہاں آیت میں اس بلوغ کی تعبیر لفظ نکاح سے کی گئی ہے کیونکہ بلوغ میں سے نکاح ایک اہم اثر ہوتا ہے ۔