33:50 ile 33:52 arasındaki ayetler grubu için bir tefsir okuyorsunuz
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

یایھا النبی انا احللنا ۔۔۔۔۔۔ علی کل شیء رقیبا (50 – 52)

نبی ﷺ کے لیے اس آیت میں مذکورہ عورتوں کو حلال قرار دیا گیا۔ اگرچہ وہ چار کی تعداد سے زیادہ ہوں جبکہ دوسرے مسلمانوں پر چار سے زیادہ تعداد حرام ہے۔ یہ اقسام یہ ہیں : وہ ازواج جن کو مہر دے کر آپ نے نکاح فرمایا۔ وہ عورتیں جو غلام بن کر آجائیں۔ چچا زاد اور خالہ زاد عورتیں ۔ پھوپھی زاد اور ماموں زاد عورتیں ۔ ان میں سے صرف وہ جو آپ کے ساتھ ہجرت کرکے آئیں۔ یہ ان مہاجرات کی عزت افزائی کے لیے ہے۔ نیز وہ عورت بھی جو اپنے نفس کو نبی ﷺ کے لیے بخش دے ، بغیر مہر کے اگر نبی اس کے ساتھ نکاح کرنا چاہیں۔ (روایات میں اضطراب ہے کہ آیا اس قسم کی عورتوں میں سے کسی کے ساتھ حضور ﷺ نے نکاح فرمایا یا نہیں۔ راجح بات یہ ہے کہ جب عورتوں نے اپنے آپ کو حضور ﷺ کے لیے پیش کیا آپ ﷺ نے ان کے ساتھ نکاح کیا) ۔ یہ اقسام حضور ﷺ کے لیے بطور خصوصیت جائز کی گئیں کیونکہ حضور ﷺ مومنین اور مومنات کے ولی بھی تھے۔ رہے دوسرے لوگ تو وہ اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے معاملے میں اللہ کے جاری کردہ قوانین کے پابند تھے۔ یہ استثناء اس لیے کی گئی کہ حضور ﷺ اپنے شخصی اور اجتماعی حالات کی وجہ سے مشکلات میں مبتلا نہ ہوں۔

اس کے بعد یہ اختیار بھی حضور اکرم ﷺ کو دے دیا کہ اگر کوئی اپنی ذات کے بارے میں حضور ﷺ کو پیش کش کرے تو حضور اسے اپنے حرم میں لے لیں یا موخر کردیں۔ اور جن کے معاملے کو آپ نے موخر کردیا تو بعد میں اسے حرم میں داخل کردیں۔ یہ بھی اختیار سے دیا کہ جن عورتوں کو الگ کردیں انہیں دوبارہ ساتھ بلالیں۔

ذلک ادنی ان ۔۔۔۔۔ بما اتیتھن کلھن (33: 51) ” اس طرح زیادہ متوقع ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ رنجیدہ نہ ہوں۔ اور جو کچھ بھی تم ان کو دو گے اس پر وہ سب راضی ہوں گی “۔ گویا یہ حضور اکرم ﷺ کے خاص حالات کے تحت اجازت دی گئی۔ کیونکہ سب عورتیں آپ کی طرف راغب تھیں اور آپ کے ساتھ رابطہ چاہتی تھیں۔ اللہ کو ان حالات کا سب سے زیادہ علم تھا۔

واللہ یعلم ۔۔۔۔۔ علیما حلیما (33: 51) ” اللہ جانتا ہے جو تم لوگوں کے دلوں میں ہے اور اللہ علیم و حلیم ہے “۔

اس کے بعد یہ حکم ہے کہ آپ کے حرم میں جو عورتیں ہیں ، وہ ذاتی طور پر آپ کے لئے جائز ہیں۔ تعداد مطلوب نہیں ہے۔ اس لیے آپ ان میں سے کسی کے بدلے کسی دوسری عورت کو نہیں لاسکتے۔ یہ معلوم نہیں ہے کہ آیا حضور ﷺ نے اس آیت کے نزول سے قبل کسی عورت کا اضافہ کیا تھا۔

لا یحل لک النسآء ۔۔۔۔۔۔ اعجبک حسنھن (33: 52) ” اس کے بعد تمہارے لیے دوسری عورتیں حلال نہیں اور نہ اس کی اجازت ہے کہ ان کی جگہ اور بیویاں لے آؤ، خواہ ان کا حسن تمہیں کتنا ہی پسند ہو۔ اس میں کوئی استثناء نہیں

الا ما ملکت یمینک (33: 52) ” البتہ لونڈیوں کی تمہیں اجازت ہے “۔ لونڈیاں جس قدر چاہیں رکھ سکتے ہیں۔

وکان اللہ علی کل شئ رقیبا (33: 52) ” اور اللہ ہر چیز پر نگران ہے “۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ یہ حرمت بھی حضور اکرم ﷺ کی وفات سے قبل اٹھالی گئی تھی لیکن اجازت کے باوجود حضور اکرم ﷺ نے ان کے سوا کسی عورت کے ساتھ نکاح نہ کیا اس لیے وہی امہات المومنین رہیں۔

اس کے بعد نبی ﷺ کے گھرانے اور عام مسلمانوں کے تعلقات و روابط کی ضابطہ بندی کی گئی ہے کہ آپ کی زندگی میں لوگوں کا ربط آپ کی ازواج کے ساتھ کیسا ہوگا اور آپ کی وفات کے بعد کیا تعلق ہوگا۔ یہ احکام اس وقت کے واقعی حالات کے مطابق آئے۔ کیونکہ بعض منافقین اور بعض مریض اخلاق والے لوگ نبی ﷺ کو آپ کی ازواج کے بارے میں اذیت دیتے تھے۔ اس لیے ان آیات میں ان کو سخت دھمکی دی جاتی ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ اللہ کے نزدیک ان کی حرکات بہت ہی گھناؤنی ہیں یہ لوگوں سے تو چھپ سکتے ہیں مگر اللہ سے نہیں چھپ سکتے۔ اللہ ان کی شرارتوں کو بھی جانتا ہے اور نیتوں کو بھی۔