19:66 ile 19:68 arasındaki ayetler grubu için bir tefsir okuyorsunuz
ويقول الانسان ااذا ما مت لسوف اخرج حيا ٦٦ اولا يذكر الانسان انا خلقناه من قبل ولم يك شييا ٦٧ فوربك لنحشرنهم والشياطين ثم لنحضرنهم حول جهنم جثيا ٦٨
وَيَقُولُ ٱلْإِنسَـٰنُ أَءِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا ٦٦ أَوَلَا يَذْكُرُ ٱلْإِنسَـٰنُ أَنَّا خَلَقْنَـٰهُ مِن قَبْلُ وَلَمْ يَكُ شَيْـًۭٔا ٦٧ فَوَرَبِّكَ لَنَحْشُرَنَّهُمْ وَٱلشَّيَـٰطِينَ ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّهُمْ حَوْلَ جَهَنَّمَ جِثِيًّۭا ٦٨
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

عرب کے لوگ جو قرآن کے پہلے مخاطب تھے وہ زندگی بعد موت کو مانتے تھے۔ مگر یہ ماننا صرف رسمی ماننا تھا، وہ حقیقی ماننا نہ تھا۔ قرآن میں آخرت سے متعلق جتنے الفاظ ہیں وہ سب پہلے سے ان کی زبان میں موجود تھے۔ مگر ان کی زندگی پر اس ماننے کا کوئی اثر نہ تھا۔ ان کی عملی زندگی ایسی تھی گویا کہ وہ زبان حال سے کہہ رہے ہوں کہ— زندگی تو بس یہی دنیا کی زندگی ہے۔ مرنے کے بعد کون ہم کو اٹھائے گا اور کون ہمارا حساب لے گا۔

مگر یہ غفلت یا انکار صرف اس لیے ہے کہ آدمی سنجیدگی کے ساتھ غور نہیں کرتا۔ اگر وہ غور کرے تو اس کی پہلی پیدائش ہی اس کے لیے اس کی دوسری پیدائش کی دلیل بن جائے۔

یہاں ’’شیاطین‘‘ سے مراد برے لیڈر ہیں۔ یہ لیڈر پر فریب الفاظ بول کر عوام کو بہکاتے ہیں۔ اس اعتبار سے وہ وہی کام کرتے ہیں جو شیطان کرتاہے۔ موجودہ دنیا میں یہ لیڈر عظمت کے مقام پر کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس لیے لوگ ان کو نظر انداز نہیں کرپاتے۔ مگر آخرت میں ان کی عظمت ختم ہوجائے گی۔ وہاں یہ بڑے لوگ بھی اسی طرح ذلت کے گڑھے میں ڈال دئے جائیں گے جس طرح ان کے چھوٹے لوگ۔