قریش کے بعض سرداروں نے ایسا کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے توحید کی دعوت پیش کی تو وہ بے پروائی کے ساتھ اٹھے۔ اپنی چادر اپنے اوپر ڈالی اور روانہ ہوگئے۔
یہ دراصل کسی بات کو نظر انداز کرنے کی ایک صورت ہے۔ کوئی آدمی جب داعی کو حقیر سمجھے اور اس کے مقابلہ میں اپنے کو برتر خیال کرے تو اس وقت وہ اسی قسم کا رویہ اختیار کرتاہے۔ مگر آدمی بھول جاتاہے کہ جس نفسیات کے تحت وہ ایسا کر رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے۔ یہ صرف ایک انسان (داعی) کو نظر انداز کرنا نہیں ہے بلکہ خود خدا کو نظر انداز کرنا ہے جو ہر کھلے اور چھپے کو جاننے والا ہے۔
پھر آدمی کا حال س وقت کیا ہوگا جب وہ خدا کا سامنا کرے گا۔ وہ دیکھے گا کہ جس خدا کو اس نے نظر انداز کیا تھا وہی وہ ہستی تھا جس سے اس کو وہ سب کچھ ملا تھا جو اس کے پاس تھا۔ حتی کہ وہ اسباب بھی جن کے بَل پر اس نے خدا کی بات کو نظر انداز کردیا تھا۔ آدمی خدا کی دنیا میں ہے اور بالآخر وہ خدا کی طرف جانے والا ہے۔ مگر وہ اس طرح رہتا ہے جیسے کہ نہ آج خدا سے اس کا کوئی تعلق ہے اور نہ آئندہ اس کا خدا سے کوئی واسطہ پڑنے والا ہے۔