آیت 7{ اَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنٰی۔ } ”اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو مستغنی دیکھتا ہے۔“ وہ دیکھتا ہے کہ اس پر کوئی پکڑ نہیں۔ دنیا میں نہ تو ظالم کو اس کے ظلم کی قرار واقعی سزا ملتی ہے اور نہ ہی مظلوم کی کماحقہ داد رسی ہوتی ہے۔ چناچہ وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اس دنیاکا نظام محض طبعی قوانین و ضوابط physical laws کے مطابق چل رہا ہے اور یہ کہ یہاں اخلاقی قوانین moral laws کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ انسان کی روز مرہ زندگی کا تجربہ بھی اسے یہی بتاتا ہے کہ زہر کھانے سے تو آدمی ہلاک ہوجاتا ہے لیکن حرام کھانے سے اسے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ چناچہ جب معاشرے کے عام آدمی کو نیکی ‘ انصاف ‘ دیانت داری جیسے الفاظ عملی طور پر بےمعنی اور بےوقعت نظرآتے ہیں تو وہ سرکشی اور َمن مرضی کے راستے پر چل نکلتا ہے۔ اب اگلی آیت میں انسان کی اس سرکشی اور بغاوت کا علاج بتایا جا رہا ہے۔ اس کا علاج اس یاد دہانی میں ہے کہ :