۞ يا ايها الذين امنوا اطيعوا الله واطيعوا الرسول ولا تبطلوا اعمالكم ٣٣
۞ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِيعُوا۟ ٱلرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوٓا۟ أَعْمَـٰلَكُمْ ٣٣
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

یایھا الذین امنوا ۔۔۔۔۔۔ اعمالکم (47 : 33) “ اے لوگو ، جو ایمان لائے ہو ، تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کر لو ”۔

اس سخت ہدایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت مسلمہ کے اندر بھی ایسے لوگ تھے جو مکمل اطاعت سے گریزاں تھے یا یہ کہ ان پر مکمل اطاعت ذرا بھاری تھی اور بعض قربانیاں ان کو حد سے زیادہ لگ رہی تھیں لیکن اس وقت ایک قوی دشمن کے مقابلے میں یہ ضروری تھیں جس نے اسلام کی راہ روک رکھی تھی۔ اور یہ قوتیں اس وقت ہر طرف سے اسلام پر حملہ آور تھیں۔ اور ان مسلمانوں کے ان قوتوں کے ساتھ تجارتی ، برادری اور رشتہ داری کے تعلقات بھی تھے۔ اور اس وقت ان سب تعلقات کو کاٹ دینا ان کو مشکل معلوم ہوتا تھا۔ جس طرح اسلامی دعوت اور نظریہ کا تقاضا تھا کہ اب یہ تمام تعلقات کٹ جائیں۔

سچے مسلمانوں پر ان ہدایات کا بڑا شدید اثر ہوا تھا ۔ وہ ایک بار تو ان دھمکیوں کے نتیجے میں کانپ اٹھے تھے اور وہ بروقت ڈرتے تھے کہ شاید ان سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہوجائے جس سے ان کے اعمال ہی اکارت جائیں۔

امام احمد ابن نصر المروزی نے کتاب الصلوٰۃ میں روایت کی ہے۔ ابو قدامہ سے ، انہوں نے وکیع سے ، انہوں نے ابو جعفر رازی سے انہوں نے ربیع ابن انس سے ، اور انہوں نے ابو العالیہ سے ، جو کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کے رفقاء یہ خیال کرتے تھے کہ لا الٰہ الا اللہ پڑھ لینے کے بعد کوئی گناہ مضر نہیں ہے جبکہ شرک کے ساتھ کوئی عمل مفید نہیں ہے۔ اس پر یہ آیت ناز ہوئی۔

اطیعوا اللہ ۔۔۔۔ اعمالکم (47 : 33) “ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو ”۔ اس کے بعد وہ ڈرنے لگے کہ کوئی گناہ دوسرے اعمال کو برباد نہ کر دے۔

حضرت عبد اللہ بن المبارک سے منقول ہے کہ ، بکر بن معروف نے ، مقاتل ابن حیان سے ، انہوں نے نافع سے ، اور انہوں نے حضرت ابن عمر سے ، روایت کی ہے ، وہ کہتے ہیں : “ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھی یہ خیال کرتے تھے نیکیاں سب کی سب مقبول ہوں گی ، یہاں تک کہ آیت۔

اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول ولا تبطلوا اعمالکم (47 : 33) “ اطاعت کرو اللہ کی ، اور اطاعت کرو رسول اللہ ﷺ کی اور اپنے اعمال ضائع نہ کرو ” ۔ نازل ہوئی ، تو ہم نے سوچا کہ وہ کیا چیز ہے جو ہمارے اعمال کو ضائع کر دے گی۔ تو ہم نے کہا کہ کبائر اور موجبات اور فواحش ہوں گے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی۔

ان اللہ لا یغفر ۔۔۔۔۔۔ لمن یشاء “ اللہ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے اور اس کے سوا کسی کے جو گناہ چاہے ، معاف کر دے ”۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ہم نے ایسا کہنا چھوڑ دیا تاہم کبائر گناہوں کے ارتکاب کرنے والوں کے انجام سے ڈرتے تھے۔ فواحش کے مرتکبین سے ڈرتے تھے اور جو ان سے بچتا ہو ، اس کے انجام کے بارے میں پر امید تھے۔

ان نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ سچے مسلمان ان نصوص کو کس طرح لیتے تھے۔ وہ کس طرح مضطرب اور چوکنے ہوجاتے تھے۔ وہ کس طرح کانپ اٹھتے تھے اور ڈرتے رہتے تھے ، وہ کس طرح محتاط رہتے کہ وہ کہیں ان کی زد میں نہ آجائیں۔ وہ کس طرح ہر وقت سوچتے رہتے تھے کہ ان کی زندگی نصوص الٰہی کے مطابق ہو ، اور وہ اس تیز احساس کے ساتھ آیات الٰہیہ کو لیتے تھے ، اس لیے وہ اس انداز کے مسلمان تھے۔