ومن اياته منامكم بالليل والنهار وابتغاوكم من فضله ان في ذالك لايات لقوم يسمعون ٢٣
وَمِنْ ءَايَـٰتِهِۦ مَنَامُكُم بِٱلَّيْلِ وَٱلنَّهَارِ وَٱبْتِغَآؤُكُم مِّن فَضْلِهِۦٓ ۚ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَـَٔايَـٰتٍۢ لِّقَوْمٍۢ يَسْمَعُونَ ٢٣
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

ومن ایتہ منامکم ۔۔۔۔۔۔ لقوم یسمعون (30: 23) ” “۔ اس آیت میں بھی کائناتی مظاہر اور ان کے ساتھ انسانی احوال میں تبدیلی کی بات کی گئی ہے اور دونوں کے درمیان تعلق دکھایا گیا ہے۔ جس کے ذریعے اس عظیم الجثہ موجودات کے اندر ربط ظاہر ہوتا ہے اور ان کے درمیان ہم آہنگی بتائی جاتی ہے۔ شب و روز کے اختلاف کے ساتھ انسان کا سونا اور جاگنا اور اس دنیا میں رزق حلال کے لئے جدوجہد کرنا مربوط ہے۔ رزق حلال کو یہاں فضل الٰہی سے تعبیر کیا گیا ہے بشرطیکہ وہ آرام کے بعد رزق حلال کے لیے جدوجہد کریں اللہ نے اس کائنات کو یوں بنایا ہے کہ وہ انسان کے لیے اس کی جدوجہد آسان کر دے اور وہ اس کرہ ارض پر خوشگواری سے رہ سکے۔ اس جدوجہد کے لیے دن کی روشنی کو موزوں بنایا ہے۔ آرام اور راحت کے لیے رات کی تاریکی کو آسان بنایا ہے۔ یہ منظر اس کرہ ارض پر رہنے والی بیشتر مخلوقات کے لیے ہے۔ ہر کسی کے لئے درجہ بدرجہ سہولت کا انتظام کیا گیا ہے۔ گرض نظام کائنات میں موجودات میں سے ہر موجود اپنے لیے سہولت پاتا ہے اور یہ سہولیات اس کے لیے نہایت فطری ہیں۔ اس کی فطرت اور اس کی زندگی سے ہم آہنگ اور خوشگوار۔

ان فی ذلک لایت لقوم یسمعون (30: 23) ” یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کیلئے جو سنتے ہیں “۔ نیند سکون ہے اور سعی حرکت ہے۔ دونوں کا ادراک سننے سے ہوتا ہے۔ لہٰذا یسمعون کا لفظ قرآن کریم کے اسلوب بیان کے مطابق نہایت ہی موزوں ہے۔