یہ غنودگی کا واقعہ بھی نہایت ہی عجیب اور حیرت انگیز ہے۔ یہ ایک نفسیاتی حالت تھی اور جنگ سے قبل مسلمانوں پر طاری ہوگئی تھی۔ یہ صرف امر الہی اور اللہ کی خاص تدبیر اور تقدیر کا کارنامہ تھا۔ جب لشکروں کا آمنا سامنا ہوا تو مسلمانوں پر قدرے خوف طاری ہوگیا کیونکہ ان کی توقع نہ تھی کہ اس قدر عظیم لشکر امنڈ آئے گا۔ اور اس وجہ سے ان کی تیاری بھی نہ تھی ، اچانک انہیں غنودگی نے آ لیا۔
جب یہ غنودگی دور ہوئی تو وہ بالکل فریش اور تروتازہ تھے۔ ان کے دل اطمینان سے بھرے ہوئے تھے۔ یہ حالات ان پر احد میں طاری ہوگئی تھی۔ لوگوں کے اندر بےچینی آگئی ، اور اللہ نے ان پر غنودگی طاری کردی۔ اور انہیں اطمینان ہوگیا ۔ میں ان آیات کو پڑھ کر گذر جاتا تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ یہ دور ماضی کا ایک واقعہ ہے۔ میں اس واقعہ کے بارے میں قران کریم کے اس قصے کو پڑھتا اور یہ سمجھتا کہ اس کا راز اللہ ہی جانتا ہے جس نے ہمیں اس کی اطلاع دی ہے۔ لیکن جب مجھ پر مشکلات آئیں اور بعض لمحات نہایت ہی تنگی اور پریشانی کے بھی گذرے تو مجھے ان آایت کا مفہوم سمجھ میں آیا۔ ایک بار میں نامعلوم خوف سے دوچار ہوگیا ، غروب شمس کا وقت تھا ، اچانک چند منٹوں کے لیے مجھ پر غنودگی آجاتی ہے اور جب یہ حالت دور ہوتی ہے تو میں محسوس کرتا ہوں کہ میں وہ نہیں ہوں جو اس غنودگی سے پہلے تھا۔ میرا نفس نہایت ہی پرسکون تھا۔ دل مطمئن تھا اور میں گہرے اطمینان میں غرق تھا۔ چند لمحات میں یہ عمل کیسے طے ہوگیا۔ یہ اچانک کس طرح انقلاب برپا ہوگیا۔ یہ میں نہیں جانتا۔ لیکن یہ بات ضرور ہوگئی کہ قصہ بدر و احد میری سمجھ میں آگیا۔ اس واقعہ کے بعد میں اپنی پوری شخصیت کے ساتھ اس قصے کو سمجھ لیا ، محض عقلی طور پر نہیں یہ اب میرے وجود میں ایک زندہ حقیقت تھی۔ محض تصور اور خیال نہ تھا۔ مجھے صاف نظر آیا کہ اس میں دست قدر کی کارفرمائی ہے اور نہایت ہی خفی طور پر مجھے اطمینان عطا ہوگیا۔
بدر کے دن جماعت مسلمہ کے لیے یہ غنودگی اللہ کی غیبی امداد تھی۔ اذ یغشکیم النعاس امنۃ ۔ اس وقت کو یاد کرو کہ تمہار رب اپنی طرف سے غنودگی کی شکل میں تم پر اطمینان و بےخوفی کی کیفیت طاری کر رہا تھا۔ اس آیت میں یغشیکم النعاس اور امنۃ تینوں لفظ اس فضا پر ایک لطیف اور شفاف پرتو ڈالتے ہیں اور اس منظر کی عام فضا کی نقشہ کشی کرتے ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے شب و روز کیا تھے اور یہ کہ مسلمانوں کے عام حالات کے مقابلے میں اور ان کی اس نفسیاتی کیفیت میں فرق کیا تھا۔
اب بارش کا قصہ ملاحظہ فرمائیں۔
وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ وَيُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَى قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الأقْدَامَ (11): اور آسمان سے تمہارے اوپر پانی برسا رہا تھا تاکہ تمہیں پاک کرے اور تم سے شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست دور کرے اور تمہاری ہمت بندھائے اور اس کے ذریعے سے تمہارے قدم جما دے۔
یہ واقعہ معرکہ سے قدرے پہلے پیش ٓیا۔ اور یہ بھی امت مسلمہ کے لیے ایک قسم کی خاص امداد تھی۔
علی ابن طلحہ نے حجرت ابن عباس سے روایت کی ہے ، کہ یوم بدر میں حضور ﷺ نے جس جگہ پر قیام کیا اس کی پوزیشن یہ تھی کہ مشرکین اور پانی کے درمیان ایک ریت کا ٹیلہ تھا جو ایک پتھریلی جگہ تھی۔ اس دن مسلمان بہت ہی تھکے ہوئے تھے۔ ایسے حالات میں شیطان نے ان کے دلوں میں وسوسہ اندازی شروع کردی کہ تم دعویٰ تو یہ کرتے ہو کہ تم اللہ کے دوست ہو اور تمہارے اندر اللہ کے رسول موجود ہیں۔ حالانکہ مشرکین پانی پر قبضہ کرچکے ہیں اور تمہاری حالت یہ ہے کہ تم حالت جنابت میں نماز پڑھتے ہو۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے شدید بارش برسائی۔ مسلمانوں نے پانی بھی پیا اور طہارت بھی حاصل کی اور اللہ نے شیطانی نجاست سے ان کو پاک کردیا۔ جب بارش ہوئی تو ریت بھی بیٹھ گئی اور لوگ اور جانور اس کے اوپر آسانی سے چلنے لگے۔ اس طرح وہ آگے بڑھے۔ ـاللہ نے نبی کو ایک ہزار فرشتوں کی امداد حضرت جبریل کی کمان میں پانچ صد فرشتے تھے جو ہر قسم کے سامان سے لیس تھے۔ اور میکائیل کی کمان میں بھی پانچ صد فرشتے تھے۔
یہ حالت اس وقت پیش آئی جب کہ حضور ﷺ نے حباب ابن منذر کے مشور پر کیمپ نہیں بدلا تھا۔ انہوں نے شمورہ دیا کہ مناسب یہ ہے کہ ہم بدر کے پانیوں کے قریب فروکش ہوں اور پانی کا حوض بنا کر مخالف کیمپ کا پانی بند کردیں۔
” معروف یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بدر کی طرف چلے تو آپ نے ابتدائی اور پہلے پانی پر قیام کیا لیا۔ اس پر حباب ابن منذر آگے بڑھے کہ جس مقام پر قیام کا حکم دیا گیا ہے آیا یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ ہم اس میں رد و بدل کرسکتے ہیں اور یہ مقام بطور جنگی چال اور تدبیر ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں نے یہ مقام محض جنگی سوچ کی بنا پر تجویز کیا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا پھر یہ جگہ ٹھیک نہیں ہے فوجی کیمپ کے لیے۔ مناسب یہ ہے کہ آپ ہمیں آخری پانی پر لے چلیں جو مشرکین کے قریب ہے اور اس آخری پانی سے پیچھے جس قدر پانی ہیں ، ان کو ہم دشمن سے روک لیں گے۔ ہم خود پئیں گے اور مویشیوں کو پلائیں گے۔ یوں ہمارے پاس پانی ہوگا اور ان کے پاس پانی نہ ہوگا۔ اس پر حضور نے لشکر کو ایسا ہی کا حکم دیا اور اس مشورے پر عمل کیا۔
حباب ابن المنذر کے مشورے سے قبل کی رات میں مسلمانوں کی یہ حالت تھی جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ بطور احسان اس جماعت سے کر رہے ہیں جو بدر میں شریک ہوئی۔ یہ جو امداد اللہ نے کی یہ دوسری امداد تھی۔ یہ روحانی بھی تھی اور مادی بھی تھی اس لیے کہ صحراؤں میں پانی پر زندگی موقوف ہوتی ہے۔ پانی فتح کا سامان ہوتا ہے اور صحراؤں میں جس لشکر کے پاس پانی نہ ہو وہ ذہنی طور پر شکست کھا جاتا ہے۔ اور روحانی اس طرح کہ مسلمان شیطانی وسوسوں سے بھی نکل آئے۔ وہ حالت جنابت میں نماز پڑھ رہے تھے۔ اس وقت تک ان کو تیمم کی اجازت بھی نہ تھی۔ یہ اجازت بہت بعد میں غزوہ بنی المصطلق میں دی گئی یعنی 5 ہجری میں۔ ایسے حالات میں شیطان نے نفسیاتی وسوسے ڈالے اور لوگوں کے اندر نفسیاتی اور روحانی بےچینی پیدا کردی تھی تاکہ جب یہ لوگ اس معرکے میں داخل ہوں تو روحانی اعتبار سے پریشان ہوں اور مادی شکست سے پہلے ان کو اندرونی طور پر شکست ہوچکی ہو اور وہ اندر سے ٹوت چکے ہوں۔ ایسے حالات میں اللہ کی یہ امداد خاص آئی ہے۔
” وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ وَيُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَى قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الأقْدَامَ (11): اور آسمان سے تمہارے اوپر پانی برسا رہا تھا تاکہ تمہیں پاک کرے اور تم سے شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست دور کرے اور تمہاری ہمت بندھائے اور اس کے ذریعے سے تمہارے قدم جما دے “
یوں مادی امداد کے ساتھ ساتھ روحانی امداد بھی پوری پوری ہوجاتی ہے۔ پانی کی وجہ سے دلوں کو اطمینان ہوگیا اور روح کی پاکیزگی کی وجہ سے وہ تروتازہ ہوگئے۔ بارش کی وجہ سے ریت بیٹھ گئی اور قدم بھی مضبوط ہوگئے۔
یہ تدابیر اس کے علاوہ تھیں کہ اللہ نے فرشتوں کو خصوصی ہدایت دے دیں کہ تم اہل ایمان کے قدموں کو مضبوط کرو اور کفار کے دلوں میں ان کا رعب ڈالو ، اور فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ تم عملاً جنگ میں شرکت کرو۔