اولم يتفكروا ما بصاحبهم من جنة ان هو الا نذير مبين ١٨٤
أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا۟ ۗ مَا بِصَاحِبِهِم مِّن جِنَّةٍ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌۭ مُّبِينٌ ١٨٤
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

قرآن کریم ان آیات میں ان لوگوں کو تنبیہ کر رہا ہے جو اس وقت مکہ میں اسلام کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف تھے۔ لیکن یہ آیت مکہ کے لوگوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ، ازمنہ مابعد میں بھی امت مسلمہ کے ساتھ اس کے دشمنوں کا یہی سلوک ہے اور ہوگا ، اللہ ان مخالفوں کو مہلت دیتا ہے لیکن اس کی تدبیر مستحکم ہوتی ہے۔ اس لیے اللہ انہیں مشورہ دیتا ہے کہ وہ جو کچھ کرتے ہیں آنکھیں کھول کر کریں۔ اپنے دل و دماغ سے کام لیں اور اپنے آپ کو جہنمی مخلوق میں شامل نہ کریں۔ اسلام اہل مکہ کو یہ مشورہ دے رہا تھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے معاملے میں اپنے رویے پر اچھی طرح غور کریں ، کیا وہ دیکھتے نہیں کہ آپ حق کے حامل اور حق کے داعی ہیں۔ نیز اہل مکہ زمین و آسمان کی ساخت اور بادشاہت پر غور کریں۔ کیا اس میں سچائی تک پہنچانے والی آیات و معجزات بکھرے ہوئے نہیں ہیں۔ یہ مہلت جو انہیں دی جا رہی ہے یہ بہت ابدی اور طویل نہیں ہے۔ اللہ کی تدبیر کے وقوع کا وقت بہت ہی قریب ہے۔ وہ کیوں اس قدر غافل ہوگئے ہیں ؟

اسلام یہ کوشش کرتا ہے کہ انسانوں کو مدہوشی سے ہوش میں لائے ، ان کو غفلت کے خواب گراں سے جگائے اور انسان کی فطرت کو ان تہوں کے نیچے سے نکال کر باہر لائے جو اس کے اوپر جمی ہوئی ہیں۔ انسانوں کے شعور کو تازہ کرے۔ قرآن انسان کی شخصیت اور انسانیت کو مخاطب کرتا ہے اور اس کی ان صلاحیتوں کو جگاتا ہے جن کے ذریعہ وہ دعوت اسلام کو قبول کرلیں۔ قرآن کریم محض جامد اور خشک قسم کا مناظرہ نہیں کرتا۔ وہ انسان کی حقیقی شخصیت کو گمراہی کی گہری تہوں کے نیچے سے نکالتا ہے۔

اَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوْا ۫مَا بِصَاحِبِهِمْ مِّنْ جِنَّةٍ ۭاِنْ هُوَ اِلَّا نَذِيْرٌ مُّبِيْن۔ اور کیا ان لوگوں نے کبھی سوچا نہیں ؟ ان کے رفیق پر جنون کا کوئی اثر نہیں ہے۔ وہ تو ایک خبردار کرنے والا ہے (جو برا انجام سامنے ٓنے سے پہلے) صاف صاف متنبہ کر رہا ہے

قریش کے پاس رسول اللہ ﷺ کے خلاف پروپیگنڈے کی جنگ میں سب سے بڑا ہتھیار یہ تھا کہ وہ آپ پر یہ الزام لگاتے کہ آپ کو جنون لاحق ہوگیا ہے اور اس پر دلیل یہ دیتے تھے کہ تم دیکھتے نہیں کہ وہ ایسا کلام پیش کر رہا ہے جو عربوں کے معروف اسالیب کلام سے بالکل مختلف ہے۔

قریش جو یہ پر پیگنڈہ کرتے تھے ، اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ جھوٹ بک رہے ہیں۔ روایات میں آتا ہے کہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ حضور جس دعوت کے حامل ہیں وہ دعوت حق ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ قرآن کریم کو سننے کے لیے بےتاب رہتے تھے اور اپنے آپ کو کنٹرول نہ کرسکتے تھے کہ اس کے سننے سے باز رہیں۔ اس سماع کے ان پر گہرے اثرات پڑتے تھے۔ اخنس ابن شریق ، ابو سفیان ابن حرب اور عمرو ابن ہشام ابوجہل کا واقعہ مشہور ہے کہ وہ سب سے چھپ چھپ کر قرآن سنتے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ یہ تینوں حضرات چھپ کر قرآن سننے کے لیے آئے۔ اس واقعہ کو فی ظلال القرآن میں ہم ذکر کر آئے ہیں۔ نیز عتبہ ابن ربیعہ کا واقعہ بھی مشہور ہے کہ اس نے خود حضور ﷺ سے سورة فصلت کی آیات سنیں اور انہوں نے اسے متزلزل کردیا۔ اور یہ واقعات بھی مشہور ہیں کہ یہ لوگ موسم حج میں لوگوں کو قرآن سے دور رکھنے کی تدبیر کرتے۔ ولید ابن مغیرہ لوگوں سے کہتے کہ یہ نہایت ہی موثر جادو ہے۔ ان سب روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسلام ، دعوت اسلام اور قرآن کی حقانیت میں شک نہ رکھتے تھے بلکہ یہ لوگ اپنے آپ کو اس دعوت سے مقابلے میں بڑا سمجھتے تھے۔ پھر ان کو یہ خطرہ تھا کہ جب ہم لا الہ الا اللہ مھمد رسول اللہ کا اقرار کرلیں گے تو پھر محمد ہمارے حاکم اور مقتدر اعلی ہوں گے۔ کیونکہ اس کلمے کا تقاضا یہ ہے کہ انسان انسانوں کی غلامی سے نکل کر اللہ کی غلامی میں آجائیں اور تمام طاغوتی طاقتوں کو ختم کردیں۔

قرآن مجید ایک عجیب اور منفرد کتاب ہے ، اور اس کا اسلوب بھی لوگوں کے اندر مروج اسالیب کلام سے زیادہ منفرد ہے ، اس لیے قریش اس سے غلط فائدہ اٹھاتے تھے۔ نیز عربوں میں پیشین گوئی کرنے والوں اور مجنونوں کے درمیان یک رنگی ہوتی تھی ، مثلاً مجذوب لوگ عربوں میں بھی اپنے آپ کو عالم بالا سے متعلق قرار دیتے تھے جو اس قسم کی باتیں کیا کرتے تھے جن کی تاویل وہ حسب منشا کرسکتے تھے ، ان روایات کی وجہ سے قریش حضرت نبی ﷺ کو بھی ایک مجذوب یا مجنون قرار دیتے تھے اور آپ کے کلام کو مجذوب یا مجنون کا کلام کہتے تھے۔

قرآن کریم ان لوگوں کو غور و فکر کی دعوت دیتا تھا اور یہ مشورہ دیتا تھا کہ یہ لوگ حضرت محمد ﷺ کے بارے میں غور و فکر کریں جنہیں وہ خوب جانتے تھے اور ان کو معلوم تھا کہ انہوں نے اس سے قبل کبھی ایسی مجذوبانہ باتیں نہیں کی تھیں۔ پھر وہ خود اس بات کے بھی گواہ تھے کہ آپ سچے اور زمین ہیں جبکہ آپ کی حکمت اور دانائی اور سنجیدگی کے بھی وہ قائل تھے۔ جب حجر اسود کے معاملے میں انہوں نے آپ کو حکم بنایا اور آپ نے جو فیصلہ کیا اس کی وجہ سے وہ ایک بہت ہی عظیم خانہ جنگی سے بچ گئے۔ پھر آپ کے پاس سب لوگ اپنی امانتیں رکھتے۔ اور یہ امانتیں اس وقت تک آپ کے پاس تھیں جب تک آپ مکہ میں تھے اور آپ کے چلے جانے کے بعد آپ کے ابن عم حضرت علی ؓ نے لوگوں تک پہنچائیں۔

قرآن مجید ان لوگوں کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے کہ حضرت محمد کا ماضی کھلی کتاب ہے ، تم آپ کی زندگی کے بارے میں سب کچھ جانتے ہو ، آخر وہ کیا بات ہے کہ جس کی وجہ سے تم ، آبے کو مجنون کہتے ہو ، آبے جس معیار کا کلام آپ پیش کر رہے ہیں کیا یہ مجنونوں اور پاگلوں کا کام ہوسکتا ہے ؟ ہر گز نہیں۔

مَا بِصَاحِبِهِمْ مِّنْ جِنَّةٍ ۭاِنْ هُوَ اِلَّا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ ۔ ان کے رفیق پر جنون کا کوئی اثر نہیں ، وہ ایک خبردار کرنے والا ہے جو صاف صاف متنبہ کر رہا ہے

آپ کی عقل میں کوئی خلل نہیں ہے وہ تو واضح واضح بات کرنے والا ہے۔ آپ کا کلام مجنون کے کلام سے بالکل مختلف ہے۔ اور آپ کے حالات زندگی مجنونوں کے حالات زندگی سے مختلف ہیں۔