الا من ارتضى من رسول فانه يسلك من بين يديه ومن خلفه رصدا ٢٧
إِلَّا مَنِ ٱرْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍۢ فَإِنَّهُۥ يَسْلُكُ مِنۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِۦ رَصَدًۭا ٢٧
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت 27{ اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ } ”سوائے اس کے جس کو اس نے پسند فرما لیا ہو اپنے رسولوں میں سے“ اس آیت میں علم غیب کے بارے میں بہت اہم اصول بتادیا گیا ہے۔ یعنی غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ وہ اپنے رسولوں علیہ السلام میں سے جسے چاہتا ہے اور جس قدر چاہتا ہے اس بارے میں مطلع فرماتا ہے۔ اس اصول کے تحت دیکھا جائے تو حضور ﷺ کی ذات سے متعلق علم غیب کا مسئلہ خواہ مخواہ متنازعہ بنا دیا گیا ہے۔ اگر تو کوئی شخص علم غیب سے مراد ایسا علم لیتا ہے جو بغیر کسی کے بتائے ہوئے حاصل ہو تو ایسا کوئی علم اللہ کی مخلوق میں سے کسی کے پاس بھی نہیں۔ ہر کسی کو جو بھی علم ملا ہے کسی نہ کسی کے سکھانے سے ہی ملا ہے۔ حضور ﷺ کا علم بھی اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بھی علم اللہ تعالیٰ نے ہی عطا کیا ہے۔ ہم جیسے عام انسان بھی اپنے والدین ‘ اساتذہ اور بڑوں سے ہی سیکھتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے پہلے علم غیب کی درست تعریف definition طے کرنا ضروری ہے۔ یہ حقیقت ہر کوئی تسلیم کرتا ہے کہ ”غیب“ کا تعلق مخلوق سے ہے ‘ اللہ تعالیٰ کے لیے تو کوئی چیز ”غیب“ ہے ہی نہیں ‘ ہر شے ہر آن اس کے سامنے موجود ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں یا خبریں ہم انسانوں سے پوشیدہ رکھی ہیں وہ ہمارے لیے ”عالم غیب“ ہے۔ مثلاً جنت ‘ دوزخ ‘ فرشتے وغیرہ۔ اس بارے میں بھی کسی کو کوئی اختلاف نہیں کہ انبیاء و رسل - کو غیب کی خبریں بھی دی جاتی ہیں اور کسی حد تک انہیں عالم غیب کا مشاہدہ بھی کرایا جاتا ہے : { وَکَذٰلِکَ نُرِیْٓ اِبْرٰہِیْمَ مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ۔ } الانعام ”اور اسی طرح ہم دکھاتے رہے ابراہیم علیہ السلام کو آسمانوں اور زمین کے ملکوت تا کہ وہ پوری طرح یقین کرنے والوں میں سے ہوجائے“۔ حضور ﷺ کو معراج کے موقع پر جنت ‘ دوزخ اور بہت سی دوسری کیفیات کا مشاہدہ کرایا گیا ‘ بلکہ غیب سے متعلق ایسے مشاہدات آپ ﷺ کو عام معمول کی زندگی میں بھی کرائے جاتے تھے۔ مثلاً ایک مرتبہ آپ ﷺ نمازِاستسقاء پڑھا رہے تھے تو نماز کے دوران آپ ﷺ اچانک ایک دفعہ آگے بڑھے اور پھر اسی انداز میں پیچھے ہٹے۔ بعد میں صحابہ کرام نے آپ ﷺ کے اس عمل کا سبب دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے سامنے اچانک جنت لے آئی گئی تو میں نے چاہا کہ اس کا پھل توڑ لوں۔ چناچہ میرا ہاتھ بےاختیار اس کی طرف بڑھ گیا۔ اس کے بعد میرے سامنے دوزخ لے آئی گئی تو اس کی تپش کی وجہ سے میں بےاختیار پیچھے ہٹ گیا۔ بہرحال علم کے اعتبار سے ایک عام انسان اور ایک نبی میں بنیادی طور پر یہی فرق ہے کہ نبی کو عالم غیب کا علم بھی دیا جاتا ہے۔ ورنہ جہاں تک امور دنیا کے علم کا تعلق ہے اس بارے میں حضور ﷺ کا واضح فرمان موجود ہے۔ ایک موقع پر آپ ﷺ نے صحابہ رض کو مخاطب کر کے فرمایا تھا : اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاَمْرِ دُنْیَاکُمْ 1 کہ دنیاداری کے اپنے معاملات کے بارے میں تم لوگ بہتر جانتے ہو۔ چناچہ اصل حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیاء و رسل - کو جب چاہے جس قدر چاہے عالم غیب کا مشاہدہ کرا دے یا غیب کے علم میں سے جتنا علم چاہے عطا فرما دے۔ البتہ جو کوئی یہ مانے کہ نبی مکرم ﷺ کو ُ کل غیب کا علم تھا وہ کافر ہے۔ حضور ﷺ کے علم غیب کے بارے میں بریلوی مکتبہ فکر کے علماء کا نقطہ نظر کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے میں نے اپنے زمانہ طالب علمی میں ذاتی طور پر متعدد بریلوی علماء سے ملاقاتیں کیں۔ میں جتنے علماء سے ملا ان سب کو میں نے مندرجہ ذیل تین نکات پر متفق پایا : 1 حضور ﷺ کا علم ذاتی نہیں ‘ عطائی ہے ‘ یعنی اللہ کا عطا کردہ ہے۔2 آپ ﷺ کا علم قدیم نہیں حادث ہے۔ یعنی پہلے نہیں تھا ‘ جب اللہ نے عطا کیا تو آپ ﷺ کو علم ہوگیا۔3 آپ ﷺ کا علم لامحدود نہیں ‘ محدود ہے۔ دراصل ان تین نکات کے بارے میں مسلمانوں کے کسی مکتبہ فکر میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔ چناچہ اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ یہ مسئلہ سرے سے بحث طلب ہے ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو علم غیب عطا فرمایا ‘ جب چاہا اور جتنا چاہا عطا فرمایا۔ اب کیا میں اور آپ اس بارے میں بحث کریں گے کہ حضور ﷺ کو کس چیز کا علم تھا اور کس چیز کا علم نہیں تھا ؟ میری اور آپ کی حیثیت ہی کیا ہے کہ ہم حضور ﷺ کے علم کے بارے میں ناپ تول کریں۔ معاذ اللہ ! { فَاِنَّـہٗ یَسْلُکُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًا۔ } ”تو اس کے آگے اور پیچھے وہ محافظ لگا دیتا ہے۔“ یعنی جب اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے غیب کے حقائق کا علم رسول کے پاس بھیجتا ہے تو اس کی حفاظت کے لیے ہر طرف فرشتے مقرر کردیتا ہے تاکہ وہ علم نہایت محفوظ طریقے سے رسول تک پہنچ جائے۔