واللايي ييسن من المحيض من نسايكم ان ارتبتم فعدتهن ثلاثة اشهر واللايي لم يحضن واولات الاحمال اجلهن ان يضعن حملهن ومن يتق الله يجعل له من امره يسرا ٤
وَٱلَّـٰٓـِٔى يَئِسْنَ مِنَ ٱلْمَحِيضِ مِن نِّسَآئِكُمْ إِنِ ٱرْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَـٰثَةُ أَشْهُرٍۢ وَٱلَّـٰٓـِٔى لَمْ يَحِضْنَ ۚ وَأُو۟لَـٰتُ ٱلْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ وَمَن يَتَّقِ ٱللَّهَ يَجْعَل لَّهُۥ مِنْ أَمْرِهِۦ يُسْرًۭا ٤
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

والئی ............................ لہ اجرا (5) (56 : 4 تا 5) ” اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہوچکی ہوں ان کے معاملہ میں اگر تم لوگوں کو کوئی شک لاحق ہے تو (تمہیں معلوم ہو کہ ) ان کی عدت تین مہینے ہے۔ اور یہی حکم ان کا ہے جنہیں ابھی حیض نہ آیا ہو۔ اور حاملہ عورتوں کی عدت کی حد یہ ہے کہ ان کا وضع حمل ہوجائے۔ جو شخص اللہ سے ڈرے اس کے معاملہ میں وہ سہولت پیدا کردیتا ہے یہ اللہ کا حکم ہے۔ جو اس نے تمہاری طرف نازل کیا ہے۔ جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کی برائیوں کو اس سے دو رکردے گا اور اس کو بڑا اجر دے گا “۔

ان آیات میں ان عورتوں کی مدت عدت کی تحدید کی گئی ہے جن کو حیض نہیں آتا اور وہ حاملہ بھی نہیں ہیں۔ یعنی وہ عورتیں جن کو حیض آنا بند ہوگیا ہو ، یا ان کو ایام بیماری کی وجہ سے یا صفر سنی کی وجہ سے آتے ہی نہ ہوں۔ کیونکہ اس سے قبل سورة بقرہ میں عدت کی جو مدت بتائی گئی تھی وہ ان عورتوں کے لئے تھی جن کو حیض آتا ہو۔ چاہے لفظ قروء سے مراد تین ایام ماہواری لئے جائیں یا تین ایام فراغت لی جائے۔ یہ فقہی اختلاف ہے۔ رہی وہ عورتیں جن کے ایام آنا بند گئے ہوں یا آتے ہی نہ ہوں یا شروع ہی نہ ہوئے ہوں تو ان کا معاملہ مجمل تھا کہ وہ کس طرح عدت گزاریں۔ چناچہ یہ ایام ماہواری کے ساتھ ایک جیسی ہوجائے۔ رہی وہ عورتیں جو حاملہ ہیں تو ان کی مدت وضع حمل ہے۔ طلاق کے بعد یہ مدط طویل ہو یا مختصر ، اگرچہ نفاس سے طہارت کے لئے چالیس ایام کی مدت ہے۔ لیکن عدت کو اس لئے مقرر کیا گیا تھا کہ یہ دیکھا جائے کہ عورت کے ہاں بچہ تو نہیں ہے۔ اب حاملہ مطلقہ تو وضع حمل کے ساتھ ہی خاوند سے جدا ہوجاتی ہے۔ لہٰذا اس کے بعد انتظار کی ضرورت نہیں ہے اور وضع حمل کے بعد اس کے ساتھ رجوع نہیں ہوسکتا ، صرف نیا نکاح ہی ہوسکتا ہے۔ اللہ نے ہر چیز کے لئے ایک میزان مقرر کردیا ہے لہٰذا ہر حکم کے پیچھے حکمت ہے۔

یہ تو تھا حکم ، اب نصیحت ، عبرت اور حکمتیں۔

ومن یتق ................ یسرا (56 : 4) ” جو شخص اللہ سے ڈرے اس کے معاملہ میں وہ سہولت پیدا کردیتا ہے “۔ انسان کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ معاملات میں اس کے ساتھ نرمی ہو۔ اور یہ بہت بڑا نعام ہے کہ اللہ اپنے امور میں سے کچھ میں لوگوں کے لئے سہولت پیدا کردے۔ یوں ان کو کوئی مشکل ، کوئی عذاب ، اذیت اور تنگی اور مشقت نہ ہو۔ اور وہ اپنے اندازے اور اپنے شعور کے مطابق سہولت محسوس کرے۔ حرکت وعمل میں معاملات کو آسان پاتا ہو۔ کام کرنے اور اس کے نتائج حاصل کرنے میں وہ اس کو آسان پائے اور وہ ایسی ہی حالت میں رہے اور اللہ کے ساتھ اس کی ملاقات ہوجائے۔ اور یہ طلاق بھی ان معاملات میں سے ہے جن میں اللہ نے سہولت پیدا کی ہے۔ (عیسائیت اور ہندو مذہب میں طلاق تھی ہی نہیں)