Unasoma tafsir kwa kundi la aya 5:78 hadi 5:81
لعن الذين كفروا من بني اسراييل على لسان داوود وعيسى ابن مريم ذالك بما عصوا وكانوا يعتدون ٧٨ كانوا لا يتناهون عن منكر فعلوه لبيس ما كانوا يفعلون ٧٩ ترى كثيرا منهم يتولون الذين كفروا لبيس ما قدمت لهم انفسهم ان سخط الله عليهم وفي العذاب هم خالدون ٨٠ ولو كانوا يومنون بالله والنبي وما انزل اليه ما اتخذوهم اولياء ولاكن كثيرا منهم فاسقون ٨١
لُعِنَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ مِنۢ بَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُۥدَ وَعِيسَى ٱبْنِ مَرْيَمَ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا۟ وَّكَانُوا۟ يَعْتَدُونَ ٧٨ كَانُوا۟ لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍۢ فَعَلُوهُ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا۟ يَفْعَلُونَ ٧٩ تَرَىٰ كَثِيرًۭا مِّنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ ۚ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنفُسُهُمْ أَن سَخِطَ ٱللَّهُ عَلَيْهِمْ وَفِى ٱلْعَذَابِ هُمْ خَـٰلِدُونَ ٨٠ وَلَوْ كَانُوا۟ يُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلنَّبِىِّ وَمَآ أُنزِلَ إِلَيْهِ مَا ٱتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَآءَ وَلَـٰكِنَّ كَثِيرًۭا مِّنْهُمْ فَـٰسِقُونَ ٨١
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

ایمان آدمی کو ظلم اور برائی کے بارے میں حسّاس بنا دیتاہے۔ وہ کسی کو ظلم اور برائی کرتے دیکھتا ہے تو تڑپ اٹھتا ہے اور چاہتا ہے کہ فوراً اسے روک دے۔ برے لوگوں سے اس کا تعلق جدائی کا ہوتا ہے، نہ کہ دوستی کا۔ مگر جب ایمانی جذبہ کمزور پڑجائے تو آدمی صرف اپنی ذات کے بارے میں حساس ہو کر رہ جاتاہے۔ اب اس کو صرف وہ بر ائی برائی معلوم ہوتی ہے جس کی زد اس کے اپنے اوپر پڑے۔ جس برائی کا رخ دوسروں کی طرف ہو اس کے بارے میں وہ غیر جانب دار ہوجاتا ہے۔

بنی اسرائیل جو اس زوال کا شکار ہوئے اس کا مطلب یہ نہ تھا کہ انھوں نے اپنی زبان سے اچھی بات بولنا چھوڑ دیا تھا۔ ان کے خواص اب بھی خوبصورت تقریریں کرتے تھے مگر اس معاملہ میں وہ اتنے سنجیدہ نہ تھے کہ جب کسی کو ظلم اور برائی کرتے دیکھیں تو وہاں کود پڑیں اور اس کو روکنے کی کوشش کریں۔ حضرت داؤد اپنے زمانے کے یہود کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ان میں كوئي نیکو کار نہیں، ایک بھی نہیں (زبور، 14:3 ) ۔ مگر اسی کے ساتھ آپ کے کلام سے اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہود اپنے ہمسایوں سے صلح کی باتیں کرتے تھے جب کہ ان کے دلوں میں بدی ہوتی تھی (زبور، 28:3 )وہ خدا کے آئین کو بیان کرتے اور خدا کے عہد کو زبان پر لاتے جب كه وه خدا كي باتوں كو پيٹھ پيچھے پھينك ديتے هيں(زبور 50:16-17 )حضرت مسیح اپنے زمانہ کے یہودیوں کے بارے میں فرماتے ہیں اے ریاکار فقیہو تم پر افسوس، تم بیواؤں کے گھروں کو دبا بیٹھے ہو اور دکھاوے کے لیے نماز کو طول دیتے ہو۔ تم پودینہ اور سونف اور زیرہ پر تودسواں حصه دیتے ہو پر تم نے شریعت کی زیادہ بھاری باتوں یعنی انصاف، رحم اور ایمان کو چھوڑ دیا ہے۔ اے اندھے راہ بتانے والو، مچھر کو چھانتے ہو اور اونٹ نگل جاتے ہو۔ اے ریا کار فقیہو تم ظاہر میں تو لوگوں کو راست باز دکھائی دیتے ہو مگر باطن میں ریاکاری اور بے دینی سے بھرے ہوئے ہو (متّی 23:23-26

یہود خدا کا آئین بیان کرتے تھے۔ وہ لمبی نمازیں پڑھتے اور فصلوں میں دسواں حصہ نکالتے۔ مگر ان کی باتیں صرف کہنے کے لیے ہوتی تھیں۔ وہ بے ضرر احکام پر نمائشی اہتمام کے ساتھ عمل کرتے تھے مگر جب صاحب معاملہ سےانصاف كرنے كا سوال هوتا، جب ايك كم زور پر رحم كا تقاضا هوتا، جب اپنے نفس كو كچل كر الله كے حكم كو ماننے كي ضرورت ہوتی تو وہ پھسل جاتے۔ حتی کہ اگر کوئی خدا کا بندہ ان کی غلطیوں کو بتاتا تو وہ اس کے دشمن ہوجاتے۔ یہی چیز هے جس نے ان کو لعنت اور غضب کا مستحق بنادیا۔