وہ مکاری جو یہودیوں نے اپنے رسول حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ کی وہ عظیم مکاری تھی ‘ اس کا تانا بانا بہت طویل و عریض تھا۔ جس طرح اناجیل میں مذکور ہے کہ انہوں نے اس پر الزام لگایا کہ اس نے اپنے منگیتر یوسف نجار کے ساتھ تعلقات قائم کئے تھے ۔ حالانکہ وہ پاک دامن تھیں اور ابھی یوسف کے ساتھ ان کی شادی نہ ہوئی تھی ۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا ۔ شغز اور اس کے بعد انہوں نے رومی حکمران بیلاطس کے پاس ان کے خلاف شکایات کیں اور کہا کہ وہ لوگوں کو رومی حکومت کے خلاف بغاوت پر ابھارتا ہے۔ اور یہ کہ وہ گمراہ ہوگیا ہے اور عوام الناس کے عقائد خراب کررہا ہے ۔ چناچہ بیلاطس نے انہیں گرفتار کرنے کا حکم دیا کہ وہ خود اسے جو سزا دینا چاہیں دیدیں ‘ اس لئے کہ وہ اگرچہ ایک بت پرست تھا مگر یہ جانتا تھا کہ ایک ایسے شخص کو کس طرح سزا دے جس پر اس کا کوئی شک وشبہ نہیں ہے ۔ یہ تھیں ان کی سازشیں بلکہ یہ ان سازشوں کا ایک حصہ تھا۔
وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ……………” وہ اس کے خلاف خفیہ تدبیریں کرنے لگے اور اللہ نے ان کے خلاف خفیہ تدبیر کی ‘ اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کر ہے ۔ “
اللہ کی تدبیر اور یہودیوں کی تدبیر کے درمیان صرف ایک مشاکلت لفظی ہے ورنہ حقیقت کے اعتبار سے یہودیوں کی تدبیر مکر ہے اور اللہ کا جواب تدبیر ہے اور مکر کا مفہوم بھی تدبیر کرنا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہاں لفظ مکر اپنے لئے اس لئے استعمال کیا ہے کہ اس سے اللہ ان کے مکر کی حقارت کا اظہار فرمائیں ۔ اس لئے کہ ان کا مقابلہ اللہ سے کیسے ہوسکتا ہے ۔ وہ کہاں اور اللہ کہاں ان کا مکر کیا اور اس کے مقابلے میں اللہ کی تدبیر دونوں میں کیا مقابلہ ہے ۔ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنا یا سولی چڑھانا چاہتے تھے ۔ لیکن اللہ نے انہیں صحیح سلامت اپنے ہاں بلالیا ‘ اور انہیں ان کفار اور ان کے گندے ماحول سے پاک کرلیا ۔ یعنی دور کردیا ‘ اور اس کے بعد انہیں یہ عزت دی گئی کہ وہ لوگ ان کے ماننے والے ہیں قیامت تک ان لوگوں کے مقابلے میں برتر رہیں گے جو ان کی تعلیمات کے ساتھ کفر کرتے ہیں ۔ اور جس طرح اللہ نے چاہا ایسا ہی ہوا ۔ اور اللہ نے مکاروں کے مکر کے بخئیے ادھیڑ دیئے۔