Unasoma tafsir kwa kundi la aya 2:191 hadi 2:192
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

مسلمانوں کو صرف ان لوگوں کے ساتھ جنگ کی تاکید کی جاتی ہے ، جنہوں نے ان کے ساتھ جنگ کی ۔ محض دینی نظریات کی وجہ سے ان پر تشدد کیا ۔ انہیں ان کے گھروں سے نکالا۔ حکم دیا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ وہ جس حال میں بھی ہوں ، مارے جائیں ، جہاں بھی ہوں مارے جائیں ۔ ماسوائے مسجد حرام کے ، ہاں اگر مسجد حرام میں بھی کفار جنگ کا آغاز کردیں تو پھر مسلمانوں کے لئے بھی جائز ہوگا ، سوائے اس کے کہ وہ حلقہ بگوش اسلام ہوجائیں ۔ اس صورت میں چاہے انہوں نے مسلمانوں کو قتل کیا ہو۔ چاہے ان پر ظلم کیا اور تشدد کا ارتکاب کیا ہو ، مسلمانوں کو یہ حکم ہے وہ ہاتھ روک لیں : وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُمْ مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلا تُقَاتِلُوهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ فَإِنْ قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ كَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ (191) فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ

” اور ان سے لڑو جہاں بھی ان سے تمہارا مقابلہ پیش آئے اور انہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے ، اس لئے کہ قتل اگرچہ برا ہے مگر فتنہ اس سے بھی زیادہ برا ہے اور مسجد حرام کے قریب جب تک وہ تم سے نہ لڑیں ، تم بھی نہ لڑو۔ مگر جب وہ وہاں لڑنے سے نہ چوکیں ، تو تم بھی بےتکلف انہیں مارو کہ ایسے کافروں کی یہی سزا ہے ۔ پھر اگر وہ باز آجائیں تو جان لو کہ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ “

محض دین ، مذہب یا نظریہ کے اختلاف کی وجہ سے تشدد کرنا دراصل ، حیات انسانی کی مقدس قدر (Value) پر دست درازی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اسے قتل سے بھی زیادہ برا قرار دیا ہے ۔ اسے جان لینے اور زندگی ختم کردینے سے بھی زیادہ گھناؤنا جرم قرار دیا ہے ۔ یہ فتنہ جو قتل سے بھی شدید تر ہے کیا ہے ؟ محض ہراساں کرنا بھی اس میں آتا ہے ۔ عملاً تشدد بھی اس میں شامل ہے ۔ ایسے حالات پیدا کردینا بھی فتنہ ہے ، جن میں لوگوں کو گمراہ کیا جاتا ہو ، انہیں اللہ کے مقرر کردہ نظام زندگی سے دور کرنا بھی فتنہ ہے ۔ مسلمانوں کے لئے کفر کو مرغوب بنانا اور اسلام سے انہیں دور کرنا ، ان کے اخلاق کو خراب کرنا یہ سب فتنے کی تعریف میں داخل ہیں ۔ اس فتنے کی واضح ترین مثال اشتراکی نظام ہے ۔ جہاں دینی تعلیم ممنوع اور الحاد کی تعلیم لازمی ہوتی ہے ۔ ایسے قوانین بنائے جاتے ہیں جو زنا ، شراب جیسے محرمات کو جائز قرار دیتے ہیں اور نشر و اشاعت کے مختلف ذرائع سے ان چیزوں کو انسانوں کے لئے مرغوب بناتے ہیں ۔ جب کہ اسلامی نظام زندگی کی ہر بات میں کیڑے نکالتے ہیں ۔ اسے مسخ کرتے ہیں اور جو اجتماعی حالات میں یہ نظام پیدا کردیتا ہے ان کا اتباع وہاں کے عوام الناس کے لئے ایک حتمی فریضہ قرار پاتا ہے۔

آزادی رائے کے بارے میں یہ نقطہ نظر انسانی زندگی میں آزادی رائے کا یہ مقام بلند اسی نظام کے عین مطابق ہے ۔ وجود کائنات کی جو غرض وغایت اسلام نے پیش کی ہے ۔ نہ نقطہ نظر اس کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہے ۔ اسلام کے مطابق تخلیق کائنات کی غرض وغایت بندگی ہے ۔ بندگی ہر اس اچھے کا کو کہا جاتا ہے جس میں کرنے والے کے پیش نظر اللہ کی رضامندی ہو ، اور اللہ کی بندگی تب ہی ممکن ہے جب انسان تمام دوسری بندگیوں سے آزاد ہو ، یہی وجہ ہے کہ انسان کی بلند ترین قدر (Value) اس کی آزادی ہے ۔ بالخصوص آزادی رائے ۔ اب جو شخص کسی کی آزادی چھین لیتا ہے ، محض نظریہ کی وجہ سے تشدد کرتا ہے ، براہ راست یا بالواسطہ ، وہ شخص اس شخص کے قتل سے بھی اس پر زیادہ ظلم کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے افراد کے مقابلہ میں مدافعت ہر طرح جائز ہے ، اگرچہ اس کے لئے جنگ کرنی پڑے ۔ قرآن کریم نے (فاقتلوھم) جنگ کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ (واقتلوھم) انہیں قتل کردینے کا حکم دیا ہے۔ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ ” اور جہاں بھی ایسے لوگ پائے جائیں انہیں قتل کردینے کا حکم دیا ہے۔ جہاں بھی پائے جائیں ۔ جس حال میں بھی وہ ہوں ۔ جس ذریعے سے بھی تم نے ایسے لوگوں کو مار سکو ، ہاں اس سلسلے میں تم صرف اسلامی آداب جنگ کا لحاظ رکھنا ہوگا ، کسی کو مثلہ نہ کرنا کسی کو آگ میں جلانا ۔

مسجد حرام دارالامن ہے ۔ اس لئے اس کے قریب نہ لڑو ۔ اس کے بارے میں اللہ نے اپنے دوست ابراہیم کی دعا قبول کی تھی ۔ اسے مرکز عوام قرار دیا گیا تھا۔ اسے دارالامان گردانا گیا تھا ۔ لہٰذا حکم ہوا مسجد حرام کے قریب کسی کے ساتھ نہ لڑو ، الا یہ کہ کفار کا کوئی گروہ یہاں تمہارے ساتھ لڑنے لگے ، لیکن جنگ کا آغاز تم نہ کرو۔ اگر وہ آغاز کردیں اور مسجد حرام کا پاس نہ رکھیں تو پھر تمہارے ہاتھ بھی بندھے ہوئے نہیں ہیں ۔ یہ لوگ عوام کو ان کے دین کی وجہ سے ستاتے ہیں ۔ مسجد حرام کا احترام نہیں ، لہٰذا یہی ان کے لئے مناسب سزا ہے ۔ ارشاد ہوا !

فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ” پھر اگر وہ باز آجائیں تو جان لو کہ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔ “ صرف باز آنا ہی کافی نہیں ۔ مسلمانوں پر تشدد سے باز آجائیں ۔ جنگ سے باز آجائیں ، کفر سے بھی باز آجائیں تب وہ معافی اور مہربانی کے مستحق ہوں گے ۔ صرف جنگ سے باز آنے کے لئے تو یہ کیا جاسکتا ہے کہ مسلمان حالت امن کا اعلان کردیں۔ مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ کفار اللہ کی مغفرت اور رحمت کے بھی مستحق ہوجائیں ۔ ہاں یہاں مغفرت اور رحمت کی طرف اشارے سے مراد یہ ہے کہ کفار کو ایمان کی ترغیب دی جائے تاکہ کفر اور تشدد کے چھوڑ دینے کے بعد وہ اللہ کی مغفرت اور اس کی رحمت کے مستحق بھی ہوجائیں۔

اسلام کی شان عظمت اور شان کریمی تو دیکھئے ۔ کفار اور ظالموں کو بھی اشارہ کیا جاتا ہے ، کہ آؤ مغفرت و رحمت کی بارش ہورہی ہے ۔ آؤ تمہارے سابقہ گناہ معاف ، تشدد اور ظلم کا قصاص معاف ، دیت معاف ، اسلامی صفوں میں مؤمنانہ شان سے داخل ہوجاؤ ، تو سب کچھ معاف۔ تم نے قتل کیا تم نے تشدد کیا ، تم نے کیا کچھ نہ کیا ، مگر سب معاف اور مغفرت و رحمت کی بارش ۔