اب مضمون ، اللہ کی تخلیقات کے اسرار و رموز بیان کرتے ہوئے ایک قدم اور آگے بڑھتا ہے۔ اللہ کی قدرت کے مزید نشانات اور اللہ کے انعامات کے کچھ مزید نمونے پیش کیے جاتے ہیں۔ لوگوں کے گھر اور ان کی مسرتیں ، گھروں کا ماحول سازوسامان اور پناہ گاہیں۔
گھر اور پرسکون گھر کس قدر عظیم نعمت ہے ، اس کی قدر وہ جانیں جو مہاجر ہیں ، جو گھروں سے نکال دئیے گئے ہیں اور مارے مارے پھر رہے ہیں۔ نہ ان کا گھر ہے اور نہ سکون ہے۔ یہاں گھروں اور سایوں کا ذکر غیب کے ذکر کے بعد آتا ہے۔ ربط یوں ہے کہ ایک سایہ بھی کسی چیز کو ڈھانپ لیتا ہے اور غیب بھی ان امور کو ڈھانپ لیتا ہے جو غیب میں ہوتے ہیں۔ دونوں میں ستر اور پوشیدگی ہے۔ گھروں کی تعبیر جائے سکون سے کرنے سے ایک حساس شخص ہی لطف اندوز ہوسکتا ہے ، غافل لوگ اس سے کما حقہ لطف نہیں لے سکتے۔ یہاں مناسب ہے کہ یہ بتا دیا جائے کہ گھر کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر کیا ہے ۔ قرآن کریم نے گھر کی تعبیر یوں کی ہے۔
واللہ جعل لکم من بیوتک سکنا (61 : 08) ” اللہ نے تمہارے لئے تمہارے گھروں کو جائے سکون بنایا ہے “۔ اسلام چاہتا ہے کہ ایک گھر نفسیاتی اطمینان ، شعوری ٹھہرائو اور جذباتی سکون کی جگہ ہو۔ یہ خوشی کی جگہ ہو ، انسان وہاں آکر خوش ہوں۔ اور اس میں انسان کے لئے مادی اور روحانی سکون کا انتظام ہو۔ اس میں جو لوگ رہتے ہوں وہ ایک دوسرے کے لئے باعث اطمینان اور خوشی ہوں ، اور ان میں سے ہر ایک شخص دوسرے کے لئے سامان سکون ہو۔ اسلام کسی بھی گھر کو نزاع ، جھگڑے ، بےاتفاقی اور مخاصمت کی جگہ بنانا نہیں چاہتا کیونکہ وہ اس کے نزدیک ٹھہرنے ، سکون ، امن اور اطمینان و سلامتی کی جگہ ہونا چاہیے۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام گھر کے احترام کی ضمانت دیتا ہے تاکہ گھر کے امن و سکون اور سلامتی کی ضمانت دی جاسکے۔ مثلاً کسی شخص کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے کے گھر میں بغیر اجازت کے داخل ہو۔ کسی کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے کے گھر میں بس گھس جائے۔ بغیر حق کے اور بغیر اجازت کے۔ اسی طرح کسی کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ گھروالوں کی اجازت کے بغیر کسی بھی وجہ سے کسی کی پرائیویسی میں دخل انداز ہو ، نہ کسی کو گھر کے خلاف تجسس کی اجازت ہے اور نہ کسی کی غیبت کی اجازت ہے کیونکہ ان امور سے کسی بھی گھر کا امن و سکون اور خوشی اور اطمینان ختم سکتا ہے۔ اسی لئے قرآن کریم نے ایک گھر کو جائے سکون قرار دیا ہے۔
یہ منظر چونکہ گھر ، پناہ گاہ اور لباس سے متعلق تھا ، اس لئے یہاں جانوروں کے بھی اس پہلو کا ذکر کیا گیا ، جو ان مقاصد کے لئے مفید ہے یعنی مسکن و لباس کا پہلو۔
وجعل لکم من جلود الانعام بیوتا تستخفونھا یوم ظعنکم و یوم اقامتکم و من اصوافھا واوبار ھا واشعار ھا اثاثا ومتاعا الی حین (61 : 08) ” اس نے جانوروں کی کھالوں سے تمہارے لئے ایسے مکان پیدا کیے جنہیں تم سفر اور قیام ، دونوں حالتوں میں ہلکا پاتے ہو۔ اس نے جانوروں کے صوف اور اون اور بالوں سے تمہارے لئے پہننے اور برتنے کی بہت سی چیزیں پیدا کردیں جو زندگی کی مدت مقررہ تک تمہارے کام آتی ہیں “۔ یہاں بھی جانوروں کے مفادات میں سے ضروریات کا ذکر کیا اور ان چیزوں کا ذکر بھی کیا جو حسن اور شوق کا سامان کرتی ہیں۔ متاع اور ثاث السیت میں یہی فرق ہے۔ متاع سے مراد فرش ، قالین اور دوسرا سامان آرائش ہے لیکن اس میں وہ سب چیزیں شامل ہیں جو تمتع کی تعریف میں آتی ہیں اور فرحت بخشش ہوتی ہیں۔
سکون اطمینان کی فضا میں اب انداز تعبیر لطیف ہوجاتا ہے۔ سایوں ، پناہ گاہوں ، پہاڑوں اور گرمی سردی اور جنگی پوشاکوں کی بات چلتی ہے۔
واللہ جعل لکم مما خلق ظللا وجعل لکم من الجبال اکناناو جعل لکم سرابیل تقیکم الحر وسرابیل تقیکم باسکم (61 : 18) ” اس نے اپنی پیدا کی ہوئی بہت سی چیزوں سے تمہارے لئے سائے کا انتطام کیا ، پہاڑوں میں تمہارے لئے پناہ گاہیں بنائیں ، اور تمہیں ایسی پوشاکیں بخشیں جو تمہیں گرمی سے بچاتی ہیں۔ اور کچھ دوسری پوشاکیں جو آپس میں جنگ میں تمہاری حفاظت کرتی ہیں “۔ چھائوں میں انسان کے لئے سکون ہے اور چھائوں کے تصور میں بھی فرحت ہے۔ پہاڑی پناہ گاہوں میں انسان اطمینان اور امن محسوس کرتا ہے۔ پھر وہ پوشاکیں جو سردی ، گرمی میں اور جنگ کی حالت میں کام آتی ہیں انسان کی دلچسپی کا سامان ہیں اور انسان کی حفاظت کے لئے ضروری ہیں۔ پھر خوشی اور مسرت کا بھی ان میں سامان ہے اس لئے اس پر یہ نتیجہ سامنے آتا ہے۔
کذلک یتم نعمتہ علیکم لعلم تسلمون (61 : 18) ” اس طرح وہ تم پر اپنی نعمتوں کی تکمیل کرتا ہے شاید کہ تم فرمانبردار بن جائو “۔ اسلام کا مفہوم ہی سکون ، سپردگی اور سلامتی ہے۔ اس طرح اس منظر کی تمام چیزوں کے درمیان معنوی ہم آہنگی پائی جاتی ہے جو قرآن کریم کے اسلوب کلام کا خاص انداز ہے۔
اب اگر وہ اسلام کو قبول کرتے ہیں تو بہتر ، اور اگر وہ منہ موڑتے ہیں اور بھاگتے ہیں تو رسول کا فریضہ تو صرف ابلاغ ہے۔ اگر یہ انکار پر تل گئے ہیں تو انکار کردیں لیکن جن نعمتوں کا ذکر ہوا ان کا تقاضا تو یہ ہے کہ وہ مان جائیں۔