ولو یعجل اللہ للناس الشر استجالھم بالخیر اور اگر (لوگوں کی عجلت طلب کے موافق) اللہ فوراً برا نتیجہ دے دیتا ‘ جیسا کہ فوری عجلت طلب پر اچھا نتیجہ دے دیتا ہے۔
حضرت ابن عباس نے فرمایا : اس (آیت) سے مراد وہ قول ہے جو عموماً غصہ کے وقت لوگ اپنے اہل و عیال کے متعلق کہتے ہیں کہ تم پر اللہ کی مار ‘ تم پر خدا کی لعنت وغیرہ۔
قتادہ نے کہا : آیت کا تشریحی مطلب یہ ہے کہ لوگ جب اللہ سے کوئی بددعا کرتے ہیں اور فوری شر کے طلبگار ہوتے ہیں ‘ اگر اللہ ان کی بددعا کو قبول کرنے میں اسی عجلت سے کام لے جس عجلت سے وہ لوگوں کی نیک دعاؤں کو قبول کرتا ہے۔ نیک دعاؤں کے نتیجہ کو جلد طلب کرنے کا تو آیت میں ذکر ہے ‘ جلد نتیجہ دینے کا ذکر نہیں۔ اور شر کے ساتھ استعجال کا ذکر نہیں کیا ‘ یعنی بددعا کے ساتھ نتیجہ کی فوری طلب کا ذکر نہیں کیا بلکہ فوری نتیجہ دینے کا ذکر کیا۔ اس طرح کلام میں اختصار ہوگیا اور غیر مذکور مطلب قرینہ سے معلوم ہوگیا۔ روایت میں آیا ہے کہ نضر بن حارث نے (اپنے لئے بددعا کی تھی اور) کہا تھا کہ اے اللہ ! اگر یہی حق ہے جو تیری طرف سے آیا ہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش کر۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
لقضی الیھم اجلھم تو ان کا (عذاب کا) وعدہ کبھی کا پورا ہوچکا ہوتا۔ یعنی مار دئیے گئے ہوتے اور ہلاک ہو چکتے۔
فنذر الذین لا یرجون لقاء نا فی طغیانھم یعمھون۔ سو اسلئے ان لوگوں کو جن کو ہمارے پاس آنے کا کھٹکا نہیں ہے ‘ ہم (یونہی بلا عذاب چند روز) چھوڑ رکھتے ہیں کہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں۔
لاَ یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا یعنی حشر اور عذاب سے نہیں ڈرتے۔ فَنَذَرُالخ کا عطف ایک محذوف جملہ پر ہے ‘ اصل کلام یوں تھا : لیکن ہم ہلاک کرنے میں جلدی نہیں کرتے اور ڈھیل دینے کے بجائے فوری نہیں مار ڈالتے اور ان کافروں کو گمراہی میں چھوڑے رکھتے ہیں کہ اپنی سرکشی میں سرگرداں پھرتے رہیں۔