Po lexoni një tefsir për grupin e vargjeve 97:1 deri në 97:2
انا انزلناه في ليلة القدر ١ وما ادراك ما ليلة القدر ٢
إِنَّآ أَنزَلْنَـٰهُ فِى لَيْلَةِ ٱلْقَدْرِ ١ وَمَآ أَدْرَىٰكَ مَا لَيْلَةُ ٱلْقَدْرِ ٢
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت 1{ اِنَّــآ اَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَـیْلَۃِ الْقَدْرِ۔ } ”یقینا ہم نے اتارا ہے اس قرآن کو لیلۃ القدر میں۔“ ”اَنْزَلْنٰـہُ“ کی ضمیر مفعولی کا مرجع بالاتفاق قرآن مجید ہی ہے۔ نوٹ کیجیے ! ان سورتوں کے مضامین کے اندر ایک ربط پایا جاتا ہے ‘ یعنی پہلی وحی سورۃ العلق کے فوراً بعد بتایا جا رہا ہے کہ ہم نے اس کلام کو لیلۃ القدر میں نازل فرمایا ہے۔ قدر کا معنی تقدیر اور قسمت بھی ہے اور عزت و منزلت بھی۔ یہاں دونوں معنی مراد لیے جاسکتے ہیں۔ یعنی ہم نے اس قرآن کو اس رات میں اتارا ہے جو قدر و منزلت کے اعتبار سے بےمثل رات ہے ‘ یا اس رات میں اتارا ہے جو تقدیر ساز ہے۔ سورة الدخان میں اس رات کا ذکر لَیْلَۃ مُبَارَکَۃ کے نام سے آیا ہے : { اِنَّــآ اَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَـیْلَۃٍ مُّبٰـرَکَۃٍ } آیت 3 ”یقینا ہم نے نازل کیا ہے اس قرآن کو ایک مبارک رات میں“۔ یہ کونسی رات ہے ؟ اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رض بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تَحَرَّوْا لَیْلَۃَ الْقَدْرِ فِی الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الْاَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ 1 ”لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو“۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ ستائیسویں رمضان کی شب ہی لیلۃ القدر ہے۔ لیکن جیسا کہ سورة الفجر کی آیت 3 کے ضمن میں بھی وضاحت کی جا چکی ہے ‘ قمری کیلنڈر کی طاق اور جفت راتوں کی گنتی دنیا کے مختلف خطوں میں مختلف ہوتی ہے۔ مثلاً آج ہمارے ہاں جو طاق رات ہے سعودی عرب میں ممکن ہے وہ جفت رات ہو۔ اس لیے لیلۃ القدر کو تلاش کرنے کا محتاط طریقہ یہی ہے کہ اسے رمضان کے آخری عشرے کی تمام راتوں جفت اور طاق دونوں میں تلاش کیا جائے۔ اور اگر واقعی ستائیسویں رمضان کی شب ہیلیلۃ القدر ہے تو اس بارے میں میرا اپنا خیال یہ ہے کہ پھر یہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی ستائیسویں شب ہے۔ واللہ اعلم ! اس رات میں قرآن نازل کرنے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس رات کو پورا قرآن مجید لوح محفوظ سے حاملین ِوحی فرشتوں کے سپرد کردیا گیا اور پھر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق 23 سال کے دوران میں حضرت جبرائیل علیہ السلام اس کی آیات اور سورتیں رسول اللہ ﷺ پر نازل کرتے رہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے نزول کی ابتدا اس رات سے ہوئی۔