undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت 123 وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا فِیْ کُلِّ قَرْیَۃٍ اَکٰبِرَ مُجْرِمِیْہَا لِیَمْکُرُوْا فِیْہَا ط یہ وہی فلسفہ ہے جو قبل ازیں آیت 112 میں بیان ہوا ہے۔ وہاں فرمایا گیا تھا کہ شیاطین انس و جن کو ہم خودہی انبیاء کی دشمنی کے لیے مقرر کرتے ہیں۔ یہاں پر اس سے ملتی جلتی بات کہی گئی کہ ہم ہر بستی کے اندر وہاں کے سرداروں اور بڑے بڑے چودھریوں کو ڈھیل دیتے ہیں کہ وہ حق کے مقابلے میں کھڑے ہوں ‘ لوگوں کو سیدھے راستے سے روکیں ‘ اپنی چالبازیوں اور مکاریوں سے حق پرستوں کو آزمائش میں ڈالیں تاکہ اس عمل سے صاحب صلاحیت لوگوں کی صلاحیتیں مزید اجاگر ہوں ‘ ان کے جوہر کھلیں اور ان کی غیرت ایمانی کو جلا ملے۔ وَمَا یَمْکُرُوْنَ الاَّ بِاَنْفُسِہِمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ انہیں یہ شعور ہی نہیں کہ ان کی چالبازیوں کا سارا وبال تو بآلاخر خود انہی پر پڑے گا۔ جیسے حضرت یاسر اور حضرت سمیہ رض کے ساتھ ابو جہل نے جو کچھ کیا تھا اس کا وبال جب اس کے سامنے آئے گا تب اس کی آنکھ کھلے گی اور اس وقت تو یہ عالم ہوگا کہ ع جب آنکھ کھلی گل کی تو موسم تھا خزاں کا !