ولقد خلقنا الانسان ونعلم ما توسوس به نفسه ونحن اقرب اليه من حبل الوريد ١٦
وَلَقَدْ خَلَقْنَا ٱلْإِنسَـٰنَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِۦ نَفْسُهُۥ ۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ ٱلْوَرِيدِ ١٦
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت 16 { وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ ج } ”اور ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم خوب جانتے ہیں جو اس کا نفس وسوسے ڈالتا ہے۔“ یہ اس قوت شرکا ذکر ہے جو انسان کے اندر ہے۔ نفس انسانی کے شر کا ذکر سورة یوسف میں یوں آیا ہے :{ وَمَـآ اُبَرِّیُٔ نَفْسِیْج اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ م بِالسُّوْٓ ئِ اِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّیْط اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ } ”اور میں اپنے نفس کو بری قرار نہیں دیتا ‘ یقینا انسان کا نفس تو برائی ہی کا حکم دیتا ہے سوائے اس کے جس پر میرا ربّ رحم فرمائے۔ یقینا میرا ربّ بہت بخشنے والا ‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔“فطری طور پر انسان کے اندر داعیہ خیر بھی ہے اور داعیہ شر بھی۔ انسان کی اندرونی قوت شر کو سورة یوسف کی اس آیت میں ”نفس ِامارہ“ کا نام دیا گیا ہے۔ فرائیڈ اسے id یا libido کہتا ہے۔ دوسری طرف انسان کے اندر خیر کی قوت اس کی روح ہے جس کا مسکن قلب انسانی ہے۔ انسان کی روح اسے بلندی کی طرف لے جانا چاہتی ہے۔ اس داعیہ یا قوت کو فرائیڈ super ego کا نام دیتا ہے ‘ یعنی ego انسانی انا کا اعلیٰ درجہ۔ فرائیڈ کے دیے ہوئے یہ عنوانات تو کسی حد تک ہمارے لیے قابل قبول ہیں ‘ لیکن ان عنوانات کی تشریح جو اس نے کی ہے اسے ہم درست نہیں سمجھتے۔ اس کی وجہ وہی ہے جو اس حوالے سے کئی مرتبہ پہلے بھی بیان ہوچکی ہے کہ مغربی سائنسدان اور فلاسفرز سب کے سب ایک آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ وہ صرف ”عالم خلق“ یعنی اسباب و علل کی دنیا سے واقف ہیں اور اس میں کوئی کلام نہیں کہ مادی دنیا کے اسرار و رموز کو وہ خوب سمجھتے ہیں۔ اس میدان میں انہوں نے تحقیق و تفتیش کے ایسے معیار قائم کیے ہیں کہ انسانی عقل واقعی دنگ رہ جاتی ہے۔ لیکن دوسری طرف ”عالم امر“ کے بارے میں وہ بالکل اندھے اور کورے ہیں۔ یعنی ان کے ہاں روح ‘ وحی اور فرشتے وغیرہ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ”انسان“ کے بارے میں ان کے فلسفیانہ تجزیے اکثر درست نہیں ہوتے۔ بہرحال آیت زیر مطالعہ میں انسان کے اندر موجود قوت شر نفس امارہ کا ذکر ہے کہ انسان کا نفس اسے جو پٹیاں پڑھاتا ہے اس کی تفصیلات اس کے خالق سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ { وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَـیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ۔ } ”اور ہم تو اس سے اس کی رَگِ جاں سے بھی زیادہ قریب ہیں۔“ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کے اس قرب کی کیفیت اور نوعیت کے بارے میں ہم کچھ نہیں جان سکتے ‘ بقول شاعر یہ قرب ”بےتکیف و بےقیاس“ ہے : ؎اتصالے بےتکیف بےقیاس ہست ربّ الناس را با جانِ ناس سورة الحدید کی آیت 4 میں بندوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اس قرب کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے : { وَھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ } کہ تم جہاں کہیں بھی ہوتے ہو وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے ہم اس ”معیت“ کا تصور نہیں کرسکتے۔ اسی طرح قرآن میں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ اور چہرے کا ذکر بھی ہے ‘ اس کا چہرہ کیسا ہے ؟ ہم نہیں جانتے۔ اس کا ہاتھ کیسا ہے ؟ ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ اللہ تعالیٰ رات کے آخری حصے میں آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے۔ وہ کیسے نزول فرماتا ہے ؟ ہم اس کی کیفیت کو نہیں سمجھ سکتے۔ ایسے معاملات میں خواہ مخواہ کا تجسس ہمیں فتنوں میں مبتلا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس حوالے سے ہمیں آخری بات یہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ”عالم امر“ اور اس کی کیفیات ہماری سمجھ سے وراء الوراء ہیں۔ ہم اپنے حواس خمسہ اور عقل و شعور کے ذریعے جو علم حاصل کرسکتے ہیں اس کا تعلق ”عالم خلق“ سے ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اسی ”دائرے“ میں رہتے ہوئے ‘ سوچیں سمجھیں ‘ تحقیق کریں ‘ نتائج اخذ کریں اور ان نتائج کو بروئے کار لائیں۔ دوسری طرف ”عالم امر“ سے متعلق جو معلومات وحی کے ذریعے ہم تک پہنچیں انہیں من وعن تسلیم کرلیں۔ سورة بنی اسرائیل کی آیت 36 کے الفاظ { اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ } میں اسی طرزعمل کی طرف ہماری راہنمائی کی گئی ہے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کے حوالے سے ہمارے لیے بس یہ جان لینا کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری رگِ جان سے بھی زیادہ ہمارے قریب ہے۔ اس قرب کی منطق اور کیفیت کے بارے میں ہمیں عقل کے گھوڑے دوڑانے کی ضرورت نہیں ہے۔