ولقد ضل قبلهم اكثر الاولين ٧١
وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَهُمْ أَكْثَرُ ٱلْأَوَّلِينَ ٧١
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت 71{ وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَہُمْ اَکْثَرُ الْاَوَّلِیْنَ } ”اور ان سے پہلے لوگوں کی بھی اکثریت گمراہ تھی۔“ یعنی ماضی میں بھی لوگوں کی اکثریت گمراہ ہی تھی۔ اس حوالے سے ہم سورة الانعام کی آیت 116 میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی پڑھ چکے ہیں : { وَاِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِط } ”اور اگر تم پیروی کرو گے زمین میں بسنے والوں کی اکثریت کی تو وہ تمہیں اللہ کے راستے سے لازماً گمراہ کردیں گے“۔ یہی مضمون سورة یوسف میں اس طرح بیان ہوا ہے : { وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ بِاللّٰہِ اِلاَّ وَہُمْ مُّشْرِکُوْنَ } ”اور ان میں اکثر لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے مگر کسی نہ کسی نوع کا شرک بھی کرتے ہیں۔“ گویا ہر زمانے کی اکثریت کسی نہ کسی قسم کے شرک میں ملوث رہی ہے۔ اور توحید کے ساتھ شرک کی ملاوٹ کی ابتدا ہمیشہ یوں ہوتی رہی کہ اللہ کو ایک بڑے معبود کے طور پر مان لیا جاتا ‘ لیکن اس کے ساتھ چھوٹے چھوٹے معبود بھی بنا لیے جاتے۔ پھر آہستہ آہستہ بڑا معبود اس لیے پس منظر میں چلا جاتا کہ وہ انسانی سوچ سے وراء الوراء ‘ ثم وراء الوراء ہے اور پردہ غیب میں بھی ہے ‘ جبکہ چھوٹے اور خود ساختہ معبود ”پیکر محسوس“ کے طور پر ہر وقت اپنے پجاریوں کے سامنے حاضر و موجود ہوتے۔ اس طرح رفتہ رفتہ یہ خود ساختہ معبود ہی ُ کلی ّطور پر ان کے اعصاب پر سوار ہوجاتے۔ پھر اللہ کے بارے میں یہ لوگ یہی گمان کرتے کہ وہ تو بس اپنی ذات میں مگن ہے اور اسے کائنات کی اب کوئی فکر نہیں۔ جیسے ”مشائین“ اللہ تعالیٰ کے بارے میں اسی طرح کے گمراہ کن نظریات رکھتے ہیں۔ مشائین کے لغوی معنی ہیں چلنے پھرنے والے۔ ابتدائی طور پر اس گروہ کے لوگ چلتے پھرتے ہوئے اپنے استاد سے سیکھتے اور معلومات اخذ کرتے رہتے تھے ‘ اس لیے وہ اس نام سے موسوم ہوگئے۔ اس گروہ کا ”امام“ ارسطو ہے اور ہمارے ہاں کے اکثر متکلمین علمائے فلسفہ بھی اسی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ چناچہ ارسطو کا فلسفہ اس حوالے سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف کلیات کا عالم ہے ‘ جزئیات کا نہیں۔ یعنی اللہ نے اس کائنات کو پیدا کردیا ہے ‘ اس کے لیے کچھ قوانین بنا دیے ہیں اور اب یہ سارا نظام ان قوانین کے مطابق خود بخود چل رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اس کائنات کی اب نہ تو کوئی فکر ہے اور نہ ہی اب یہ اس کے کنٹرول میں ہے۔ جیسے کسی کھلاڑی نے فٹ بال کو ِکک لگائی تو فٹ بال تیزی سے لڑھکنے لگا۔ اب فٹ بال کی حرکت اس ِکک لگانے والے کے کنٹرول میں نہیں رہی۔ وہ اسے روکنا بھی چاہے تو روک نہیں سکتا۔ اب تو اس کی رفتارزمین کی رگڑ friction سے کم ہوگی یا راستے میں کوئی رکاوٹ اس کو روک لے گی ‘ ورنہ اس کا اپنا زور حرکت momentum ختم ہوگا تو کہیں جا کر رکے گا۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں دنیا کے بڑے بڑے حکماء اور فلاسفہ کے ایسے گمراہ کن نظریات رہے ہیں۔ بہرحال انسان جب اپنے بنائے ہوئے پیمانوں پر اللہ کو ناپنا اور تولنا چاہتا ہے تو اسے ایسے ہی حماقت آمیز خیالات و نظریات سوجھتے ہیں۔