يا ايها النبي قل لازواجك وبناتك ونساء المومنين يدنين عليهن من جلابيبهن ذالك ادنى ان يعرفن فلا يوذين وكان الله غفورا رحيما ٥٩
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ قُل لِّأَزْوَٰجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ ٱلْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَـٰبِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰٓ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ ٱللَّهُ غَفُورًۭا رَّحِيمًۭا ٥٩
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

اگلی آیات میں پردے سے متعلق مزید احکام دیے جا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ آیات میں اس حوالے سے ہم دو احکام پڑھ چکے ہیں۔ ان میں پہلا حکم یہ تھا کہ عورتوں کا اصل مقام ان کا گھر ہے ‘ وہ گھروں میں رہ کر اپنی ذمہ داریاں نبھائیں اور بلا ضرورت گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ جبکہ دوسرا حکم مردوں اور عورتوں کے باہمی میل جول پر پابندی سے متعلق تھا کہ غیر محرم مردوں کو دوسروں کے گھروں میں داخلے کی اجازت نہیں۔ اگر ضرورت کے تحت کسی مرد کو کسی غیر محرم خاتون سے کوئی بات کرنی ہو تو رُو در رُو نہیں ‘ بلکہ پردے کے پیچھے رہ کر بات کرے۔ اب اگلی آیت میں اس سلسلے کا تیسرا حکم دیا جا رہا ہے کہ مسلمان خواتین اگر کسی ضرورت کے تحت گھر سے باہر نکلیں تو کس انداز سے نکلیں۔آیت 59 { یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لّاَِِزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَآئِ الْمُؤْمِنِیْنَ } ”اے نبی ﷺ ! اپنی بیویوں ‘ اپنی بیٹیوں اور اہل ایمان خواتین سے کہہ دیں کہ“ گویا اب اصلاحات کا دائرہ وسیع ہورہا ہے۔ چناچہ اس حکم میں کاشانہ نبوت کی خواتین کے علاوہ عام مسلمان خواتین کو بھی شامل کرلیا گیا اور حضور ﷺ کی وساطت سے انہیں حکم دیا گیا : { یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ } ”وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کا ایک حصہ لٹکا لیا کریں۔“ اس حکم کے متوازی سورة النور کی آیت 31 کے یہ الفاظ بھی ذہن میں تازہ کرلیں : { وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّ } ”اور وہ ڈالے رکھیں اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر۔“ سورة النور کے مطالعے کے دوران اس آیت کے حوالے سے یہ وضاحت گزر چکی ہے کہ اسلام سے قبل بھی عرب خواتین کے ہاں اوڑھنی اور چادر کے استعمال کا رواج تھا۔ اس حوالے سے ان کے ہاں ”اوڑھنی“ تو گویا لباس کا مستقل جزو تھا جسے خواتین گھر کے اندر بھی اوڑھے رکھتی تھیں جیسے کہ ہمارے ہاں بھی اکثر عورتیں دوپٹہ یا اوڑھنی ہر وقت اوڑھے رکھتی ہیں جبکہ خاندانی شریف خواتین گھر سے باہر جاتے ہوئے ایک بڑی سی چادر لپیٹ کر نکلتی تھیں۔ جتنے اونچے خاندان سے کسی خاتون کا تعلق ہوتا اسی قدر زیادہ احتیاط سے وہ چادر کا اہتمام کرتی تھی۔ البتہ عرب خواتین کے ہاں قبل از اسلام چہرہ ڈھانپنے کا کوئی رواج نہیں تھا۔ چناچہ اس حکم کے تحت خواتین کے چادر اوڑھنے کے مروّجہ طریقہ پر یہ اضافہ کیا گیا کہ خواتین گھر سے باہر نکلتے ہوئے اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے چہرے پر بھی ڈال لیا کریں ‘ یعنی گھونگھٹ لٹکا لیا کریں۔ اسی حکم کی بنا پر خواتین کے نقاب کرنے کا تصور پیدا ہوا ہے۔ جیسا کہ آج بھی ہمارے دیہات میں خواتین گھر سے باہر چادر سے اپنا چہرہ چھپائے ہوئے نظر آتی ہیں۔ خاص طور پر پختون کلچر میں زیادہ تر خواتین نقاب کا اہتمام کرتی ہیں یا بڑی سی چادر اس طرح لپیٹ لیتی ہیں کہ بس ایک آنکھ کھلی رہتی ہے۔ ایران کے دیہاتی ماحول میں بھی اس کا رواج دیکھا گیا ہے ‘ البتہ ایرانی شہروں میں صورت حال بالکل مختلف ہے۔ بلکہ وہاں اصولی طور پر گویا طے کرلیا گیا ہے کہ پردے کے حکم میں چہرہ شامل نہیں ہے ‘ حالانکہ یہ بات قرآن کی رو سے غلط ہے۔ چہرے کے پردے کے حوالے سے آیت 53 میں { فَسْئَلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍط } کے الفاظ خصوصی طور پر توجہ طلب ہیں کہ پردے کے پیچھے سے بات کرنے کی پابندی کا آخر مقصد کیا ہے۔ کیا خدانخواستہ ازواجِ مطہرات رض گھر کے اندر اوڑھنی کے بغیر ہوا کرتی تھیں ؟ اور اگر ایسا نہیں تھا تو پھر غیر محرم مردوں کو اس قدر اہتمام کے ساتھ پردے کے پیچھے سے بات کرنے کا حکم آخرکیوں دیا گیا ہے ؟ بہر حال بلا تعصب غور کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اس حکم کے ذریعے دراصل چہرے کے پردے کا اہتمام کیا گیا ہے تاکہ کسی غیر محرم مرد کی نظر ان کے چہرے پر نہ پڑے۔ چناچہ اسی اصول کے تحت آیت زیر مطالعہ میں فرمایا گیا کہ مسلمان خواتین گھروں سے باہر نکلیں تو اپنی چادریں اچھی طرح اوڑھ لپیٹ کر ان کا ایک حصہ یا ان کا پلو ّاپنے چہروں پر ڈال لیا کریں ‘ جسے عرف عام میں گھونگھٹ لٹکانا کہتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہاں ”جَلابیب“ کا لفظ آیا ہے جو ”جِلباب“ کی جمع ہے اور جِلباب کے معنی بڑی چادر کے ہیں۔ اس کے مقابل سورة النور کی آیت 31 میں لفظ خُمُر استعمال ہوا ہے ‘ جس کا واحد خمار ہے اور اس سے چھوٹی اوڑھنی مراد ہے ‘ جسے گھر کے اندر ہر وقت اوڑھا جاتا ہے۔ ”جِلباب“ کی تشریح اہل لغت نے یوں کی ہے : ”ھو الرداء فوق الخمار“ یعنی جلباب اس بڑی چادر کو کہتے ہیں جو اوڑھنی کے اوپر لی جاتی ہے۔ { ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ } ”یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں تو انہیں کوئی ایذا نہ پہنچائی جائے۔“ تاکہ دیکھنے والے خود بخود پہچان لیں کہ کوئی خاندانی شریف خاتون جا رہی ہے۔ عرب کے اس ماحول میں لونڈیاں بغیر چادر کے کھلے عام پھرتی تھیں۔ اہل ایمان عورتوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے لباس میں لونڈیوں سے مشابہ بن کر گھروں سے نہ نکلیں کہ ان کے چہرے اور سر کے بال کھلے ہوں ‘ بلکہ اپنے چہروں پر اپنی چادروں کا ایک حصہ لٹکا لیا کریں تاکہ کوئی فاسق یا منافق ان کو چھیڑنے کی جرات نہ کرے۔ { وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا } ”اور اللہ بہت بخشنے والا ‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔“