درس نمبر 77 تشریح آیات :
59۔۔۔۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔۔۔۔ 93۔
انسانی تاریخ میں قافلہ انسانیت کے اس سفر کے بیان سے پہلے ‘ ایسے ہی ایک کائناتی مومن قافلے کا ذکر تھا ‘ جو اس کائنات میں رواں دواں نظر آتا ہے ۔ اس سے پہلے سبق کے آخر میں ایسے مومنین کا ذکر جو امر الہی سے ذرا بھی سرتابی نہیں کرتے مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا گیا ہے ۔
آیت ” إِنَّ رَبَّکُمُ اللّہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ أَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ یُغْشِیْ اللَّیْْلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہُ حَثِیْثاً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِہِ أَلاَ لَہُ الْخَلْقُ وَالأَمْرُ تَبَارَکَ اللّہُ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ (54) ۔
” درحقیقت تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمان و زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر اپنے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوا ۔ جو رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے جس نے سورج اور چاند اور تارے پیدا کئے ۔ سب اس کے فرمان کے تابع ہیں ۔ خبردار رہو اسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے ۔ بڑا بابرکت ہے اللہ ‘ رب العالمین “۔
قرآن کریم میں بسا اوقات اس حقیقت کو کہ یہ پوری کائنات اللہ کی مطیع فرمان ہے اور یہ حقیقت کہ تمام انسانوں پر اللہ کا امر جاری ہونا چاہئے ایک ساتھ لایا جاتا ہے ۔ یعنی جس طرح وہ کائنات مطیع فرمان ہے جس میں انسان بستے ہیں اسی طرح انہیں بھی اللہ کا مطیع فرمان ہونا چاہئے ۔ تمہارا اسلام اس طرح ہونا چاہئے جس طرح کا اس پوری کائنات کا ہے ۔ اور جس کے قوانین میں وہ جکڑی ہوئی ہے ۔ اس طرح اس پوری کائنات کے مسلم ہونے کے اثرات قلب مومن پر پڑتے ہیں ‘ اسے خوب جھنجوڑتے ہیں اور اسے آمادہ کرتے ہیں کہ وہ اللہ کی اطاعت کے لئے آمادہ ہوجائے اور یہ کہ اس کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ اس کے اردگرد یہ پھیلی ہوئی کائنات تو اللہ کی مطیع فرمان ہو اور اس کائنات میں وہ اللہ وحدہ کے مقابلے میں سرکشی کرے ۔
غرض رسولوں کی دعوت کوئی ایسی دعوت نہیں ہے جو انوکھی ہو ‘ بلکہ وہ تو اس حقیقت کی طرف بلاتے ہیں جو اس پوری کائنات میں جاری وساری ہے ‘ اس پوری کائنات کے ضمیر میں رچی بسی ہے اور یہی حقیقت خود انسان کی فطرت کے اندر بھی موجود ہے ۔ جب بھی انسان کی فطرت پر شہوات اور خواہشات کا غلبہ ہوتا ہے یہ فطرت ضمیر کے اندر اسے پکارتی ہے اور اس طرح شیطان انسان کو گمراہ کر کے اس کی نکیل اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا ۔ یہی وہ حقیقت ہے جو اس سبق کے تمام قصوں میں مختلف پیرائیوں میں بیان کی گئی ہے ۔
آیت ” نمبر 59 تا 64۔
یہاں اس قصے کو نہایت ہی اختصار کے ساتھ لیا گیا ہے ‘ جبکہ دوسرے مقامات پر جہاں تفصیلات کی ضرورت تھی اس کی تفصیلات بھی دی گئی ہیں ۔ مثلا سورة ہود اور سورة نوح میں ‘ اس لئے کہ یہاں صرف ان نشانات راہ کی طرف اشارہ کرنا مطلوب تھا جن کے بارے میں ہم نے ابھی ذکر کیا ہے ۔ یعنی اسلامی نظریہ حیات کا مزاج کیا ہے اور اور اس کے پھیلانے اور دعوت اسلامی کا طریقہ تفہیم کیا ہے اور اس دعوت کے آغاز کے بعد لوگوں کا رد عمل کیا ہوتا ہے ؟ اس کے داعی کے جذبات کیا ہوتے ہیں۔ یہاں ہم صرف انہی نشانات رہ کی طرف اشارہ کریں گے جن کے لئے اس قصے کو یہاں لایا گیا ہے ۔
آیت ” لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحاً إِلَی قَوْمِہِ “۔ (7 : 59)
” ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کی طرف بھیجا “۔ یہ اللہ کی سنت ہے کہ اللہ ہر قوم کی طرف رسول اس کی قوم سے بھیجتے ہیں ۔ وہ ان سے ان کی زبان میں بات کرتا ہے ۔ یہ رعایت اللہ نے ہر قوم کی تالیف قلب کے لئے دی ہے اور اس لئے دی ہے کہ ان کے پیغام کو سمجھنا آسان ہو اور ان کا باہم تعارف ہو لیکن یہ سہولتیں بھی ان لوگوں کے لئے مفید ہوتی ہیں کی فطرت بگڑ نہ چکی ہو ۔ رہے وہ لوگ جن کی فطرت بگڑی ہوئی ہوتی ہے انہیں یہ انتظام بھی عجیب لگتا ہے ۔ وہ دعوت کو قبول نہیں کرتے اور اپنے آپ کو اس مقام سے اونچا سمجھتے ہیں کہ وہ ایمان لائیں اور اطاعت کریں ‘ اس لئے وہ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ملائکہ اور فرشتے آکر انہیں تبلیغ کریں ۔ یہ بات محض بہانہ سازی ہے ۔ اگر فرشتے بھی آتے تب بھی یہ لوگ مان کر نہ دیتے ۔ چاہے جو بھی طریقہ اختیار کیا جاتا وہ ماننے والے نہ تھے ۔
حضرت نوح (علیہ السلام) کو جب رسول بنا کر بھیجا گیا تو انہوں نے دعوت کا آغاز انہی کلمات سے کیا جن کے ساتھ بعد میں آنے والے تمام رسولوں نے کیا ۔
آیت ” فَقَالَ یَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللَّہَ مَا لَکُم مِّنْ إِلَـہٍ غَیْْرُہُ “۔ (8 : 59)
” اس نے کہا ” اے برادران قوم اللہ کی بندگی کرو ‘ اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے ۔ “
یہ کلمات آخر تک نہیں بدلتے ۔ یہ وہ اصولی قاعدہ ہے جس کے سوا اسلام متحقق نہیں ہو سکتا ۔ یہ انسانی زندگی کا بنیادی پتھر ہے اور اس کے بغیر انسانیت کی عمارت کھڑی ہی نہیں ہو سکتی ۔ یہی قاعدہ کلیہ اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ لوگوں کا نقطہ نظر ایک ہو ‘ ان کے مقاصد ایک ہوں اور ان کے درمیان رابطہ ایک طرح کا ہو ‘ یہی اصول ہے جس کے ذریعے کوئی انسان ہوا وہوس کی غلامی سے آزاد ہو سکتا ہے اور خود اپنے جیسے انسانوں کی غلامی سے بھی آزاد ہو سکتا ہے ۔ اسی کے ذریعے انسان بےپناہ انسانی خواہشات کو کنٹرول کرسکتا ہے اور انعام وسزا کو منضبط کرسکتا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ دین اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے ۔ اس کا اساسی قاعدہ یہ ہے کہ انسانوں کی پوری زندگی کے اندر اللہ کی حاکمیت اور بادشاہت کو قائم کیا جائے ۔ یہی ہے مفہوم اس بات کا کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور یہی مفہوم ہے اس فقرے کا کہ اللہ کے سوا کوئی الہ (حاکم) نہیں ہے ۔ اللہ کی بادشاہت جس طرح کائنات کی تخلیق میں ہے ‘ اس کی ربوبیت ‘ تدبیر اور تقدیر میں ہے اور جس طرح یہ بادشاہت انسان کی تخلیق ربوبیت اور اس کی تقدیر اس کے عناصر ترکیبی میں ہے اسی طرح یہ بادشاہت انسان کی عملی زندگی میں بھی قائم ہونا چاہیے اور اس کی عملی زندگی کو اللہ کی شریعت کے مطابق استوار ہونا چاہئے ۔ مثلا مراسم عبودیت میں اور زندگی کے تمام دوسرے معاملات میں بطور پیکیج اللہ کی بندگی ہونا چاہئے ۔ اگر ایسا نہ ہوگا تو پھر انسان شرک کا مرتکب ہوگا اور عملا وہ اس بات کا قائل ہوگا کہ اللہ کے سوا کوئی اور حاکم بھی ہیں ۔
حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لوگوں سے یہ مختصر بات کی اور انہیں ان کے انجام بد سے ڈرایا ۔ انہوں نے اس طرح نصیحت کی جس طرح ایک مشفق بھائی بھائی کو کرتا ہے ‘ اور جس طرح ایک مشفق سربراہ اپنی قوم اور خاندان کو کرتا ہے کہ اگر تم نے تکذیب کی تو انجام بہت ہی بھیانک ہوگا ۔
آیت ” إِنِّیَ أَخَافُ عَلَیْْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ (59)
” میں تمہارے حق میں ایک ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ “ اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قدیم ترین دین دین نوح میں بھی تصور آخرت اپنی مکمل شکل میں موجود ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں یوم الحساب میں تمہارے برے انجام سے کانپ رہا ہوں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی اور دینی عقائد کے بارے میں قرآن کا تصور کیا ہے اور ان نام نہاد ماہرین ادیان کا کیا تصور ہے جو تاریخ ادیان کو بھی ارتقائی انداز میں مرتب کرتے ہیں ۔ یہ لوگ قرآنی منہاج سے بیخبر ہیں۔