undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

یمنون علیک ان ۔۔۔۔۔ ان کنتم صدقین (49 : 17) “ یہ لوگ تم پر احسان جتاتے ہیں کہ انہوں نے اسلام قبول کرلیا ہے ، ان سے کہو اپنے اسلام کا احسان مجھ پر نہ رکھو بلکہ اللہ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت دی اگر واقعی تم سچے ہو ”۔

انہوں نے یہ احسان جتلایا تھا کہ وہ اسلام لائے ہیں اور ان کا زعم یہ تھا کہ وہ مومن ہیں ، جواب یہ آیا کہ اپنے اسلام کا احسان نہ جتلاؤ ۔ اگر تم دعوائے اسلام و ایمان میں سچے ہو تو احسان اللہ کی جانب سے ہے۔

یہ جو اللہ نے ان کی تردید میں آیت نازل کی ہے یہ ایک عظیم حقیقت کو ظاہر کرتی ہے۔ جس سے بڑے بڑے لوگ غافل ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ اس پر قدرے غور کریں۔ بعض اہل ایمان بھی اس سے غافل ہوتے ہیں۔

اہل زمین پر اللہ نے بڑے احسانات کئے ہیں ان میں سے ایمان سب سے بڑا احسان ہے۔ سب سے بڑا احسان تو خود انسان کا وجود اور اس ۔۔۔ ۔ سمجھا جاسکتا ہے۔ نیز انسان کی زندگی کے لوازمات اور مقدمات اور ضروریات کو سمجھا جاسکتا ہے مثلاً صحت ، سازوسامان اور زندگی لیکن ایمان ان میں سب سے بڑی نعمت ہے۔

یہ وہ احسان ہے جو انسان کی پوری زندگی کو بامقصد ، بامعنی اور ممتاز بنا دیتا ہے اور ایمان کی وجہ سے انسان کا کردار اس زمین میں بہت ہی حقیقی اور ممتاز ہوجاتا ہے۔

ایمان کی وجہ سے انسان کے اندر پہلی تبدیلی یہ واقع ہوتی ہے ، بشرطیکہ ایمان کی حقیقت انسان کے ذہن میں بیٹھ جائے کہ ایک مومن انسان کا تصور کائنات بہت ہی وسیع ہوجاتا ہے کیونکہ اس تصور کی وجہ سے انسان اس کائنات کے ساتھ مربوط ہوجاتا ہے اور اس کے اندر انسان کا ایک کردار متعین ہوجاتا ہے اور اس کے ماحول میں جو بھی چیزیں ہیں ، انسان اشخاص واقعات ان سب کی قدریں اس کے ہاں متعین ہوجاتی ہیں اور وہ اس سیارۂ زمین پر اپنے اس مختصر سے سفر کو نہایت ہی اطمینان سے طے کرتا ہے اور اللہ تک پہنچ جاتا ہے۔ وہ اپنے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات سے مایوس ہوتا ہے اور اپنے خالق کے ساتھ مانوس ہوتا ہے ، جو اس کا بھی خالق ہے اور اس کائنات کا بھی خالق ہے ، اسے اپنی اہمیت اور عظمت کا بھی شعور ہوتا ہے اور یہ کہ وہ اپنے کردار اس طرح ادا کرسکتا ہے کہ اللہ اس سے راضی ہو ، اور وہ اس کائنات کی مخلوقات اور انسانوں کے لئے باعث خیروبرکت بن سکتا ہے۔

انسان کے تصور میں ایک دوسرے پہلو سے بھی وسعت آتی ہے کہ وہ زمان و مکان کے حدود سے باہر نکل جاتا ہے۔ اپنی چھوٹی سی ذات کے حدود سے بھی باہر آجاتا ہے اور اس کائنات کی وسعتوں میں چلا جاتا ہے۔ جس کے اندر اللہ نے بےپناہ قوتیں رکھی ہوئی ہیں۔ اور بےحد اسرار چھپے ہوئے ہیں اور انسان اس قدر آگے بڑھ جاتا ہے کہ وہ بھی ایک طرح لا محدود ہوجاتا ہے۔

چونکہ انسان اپنی جنس کے اعتبار سے انسانیت کا ایک فرد ہوتا ہے ، وہ ایک ہی اصل کی طرف لوٹتا ہے اس لیے انسان نے ابتداء میں اپنی انسانیت اللہ کی روح سے لی ہے اور یہ اسے خدا نے اپنی روح ایک مٹی کے ڈھانچے میں پھونک کر عطا کی ہے اور اسی نفخ روح کی وجہ سے یہ انسان عالم بالا کے نور کے ساتھ جڑ جاتا ہے اور یہ نور زمین و آسمان کے حدود کے اندر محدود نہیں ہے۔ یہ ان سے بھی وراء ہے جس کی نہ انتہا ہے اور نہ ابتدا ہے اور مکان و زمان کے حدود میں مقید نہیں ہے۔ یہی نور اور روح ہے جس کی وجہ سے انسان ، انسان ہے۔ جب ایک انسان کے نفس کے اندر یہ بات بیٹھ جاتی ہے تو سب سے پہلے کوئی انسان خود اپنی ہی نظر میں بلند ہوجاتا ہے۔ یہ تصور انسان کو خود اس کے اپنے احساسات کے اندر مکرم بناتا ہے اور اسے نہایت ہی روشنی اور آفاقیت کا شعور دیتا ہے۔ اس کے قدم تو زمین پر چلتے ہیں لیکن اس کی روح ، اس کے سرچشمے سے جا ملنے کے لئے پھڑ پھڑاتی ہے جس نے اسے ابتدا میں روح اور نور سے نوازا اور جس نے اسے یہ عجیب رنگ حیات دیا۔

اور یہ شخص اپنی امت اور گروہ کے اعتبار سے امت مسلمہ کا ایک فرد ہوتا ہے۔ یہی وہ واحد امت ہے جو تاریخ کے نشیب و فراز میں زمانوں سے ایک معزز قافلے کی صورت میں جادو پیما ہے۔ اس کی قیادت کبھی نوح ، کبھی ابراہیم ، کبھی موسیٰ ، کبھی عیسیٰ اور کبھی محمد (علیہم السلام) کے ہاتھ میں رہی۔ انسان کے لئے یہی کافی ہے کہ اس کے دل میں یہ بات بیٹھ جائے کہ وہ اس پاک شجر کی ایک شاخ ہے جس کی جڑیں تاریخ کی گہرائیوں میں دور دور تک چلی گئی ہیں اور جس کی شاخیں آسمانوں کے اندر بہت دور تک جا چکی ہیں۔ یہی تصور ہی انسان کو ایک بلند ذوق حیات عطا کرنے کے لئے کافی ہے ، جسے یہ مل جائے وہ زندگی کے نئے احساسات لے لیتا ہے اور اس کی اس زندگی کے اندر ایک دوسری زندگی پیدا ہوجاتی ہے ، اور اس کو یہ زندگی اس کے اس نظریاتی نسب نامہ سے ملتی ہے۔ نہیں ، ابھی انسانی تصور رک نہیں گیا ، یہ اپنی ذات ، اپنی امت ، اپنی انسانیت سے بھی آگے بڑھ کر اپنی روح کے اندر اس پوری کائنات کو بھی سمیٹ لیتا ہے کہ یہ تو اس ذات نے تخلیق کی ہے جس نے انسان کو بنایا ہے ، جس نے اسے روح بخشی ہے۔ اور جس کی وجہ سے وہ کائنات کا دولہا بن گیا ہے۔ پھر اس کا ایمان اسے بتاتا ہے کہ یہ کائنات بھی ایک زندہ وجود رکھتی ہے۔ یہ زندہ ایٹم سے پیدا شدہ ہے ۔ اس کی ہر چیز میں ایک روح ہے۔ اس پوری کائنات کی بھی روح ہے۔ اور انسانوں کی ارواح اور اس کائنات کی عظیم روح دراصل دونوں باری تعالیٰ کی طرف متوجہ ہیں۔ یہ سب کی سب اللہ کو پکارتی ہیں۔ اس کی تسبیح کرتی ہیں ، اللہ کی حمد و ثنا اور اس کی اطاعت میں لگی ہوئی ہیں اور پوری طرح اللہ کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں ، یوں انسان اس عظیم کائنات کے کل کا ایک جز وبن جاتا ہے۔ یہ نہ اس سے جدا ہے اور نہ اس سے الگ ہے۔ یہ اللہ سے صادر ہے اور اپنی روح سے اس کی طرف متوجہ ہے۔ اور آخرت میں بھی اس نے اسی کی طرف جانا ہے۔ لہٰذا یہ انسان اپنی محدود ذات سے بڑا ہے۔ وہ اس قدر بڑا ہے جس قدر وہ اس کائنات کی بڑائی کا تصور ذہن میں جما سکتا ہے ۔ وہ اپنے ماحول کی تمام ارواح سے مانوس ہے۔ اور پھر وہ اس روح سے مانوس ہے جو اللہ نے اس کے اندر پھونکی ہے اس نکتے پر آکر وہ سوچتا ہے کہ وہ اس پوری کائنات سے متحد ہو سکتا ہے خواہ وہ کائنات کس قدر طویل و عریض کیوں نہ ہو اور اس کے لئے ممکن ہے کہ وہ اس میں کارہائے نمایاں سر انجام دے۔ اور بڑے بڑے واقعات کا سبب بنے اور ہر چیز کو متاثر کرے اور اس سے متاثر ہو۔ پھر اس کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ اس قوت سے استفادہ کرے جس نے اس کی تخلیق کی ، اور اس کے پورے ماحول میں پھیلی ہوئی کائنات کی تخلیق کی۔ وہ عظیم قوت جو نہ کمزور ہوتی ہے ، نہ کم ہوتی ہے اور نہ غائب ہوتی ہے۔ یعنی اللہ الکبیر المتعال ۔

اسی وسیع تصور کے پیمانے میں ، پھر یہ انسان تمام اشیاء ، تمام واقعات ، تمام اشخاص ، تمام اقدار ، تمام اہتمامات ، تمام مقاصد ، اور تمام منازل کو ایک بالکل جدید پیمانے کے ساتھ تولتا ہے ، اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کائنات میں اس کا حقیقی کردار کیا ہے۔ اس کائنات میں اس کا مقصد وجود کیا ہے ؟ اور اس کائنات میں وہ اللہ کی اقدار میں سے ایک قدر ہے۔ اس لیے اللہ جس طرف چاہے اسے موڑ دے جس طرح چاہے اسے استعمال کرے۔ یوں وہ پھر اسی سفر زندگی کو ، اس سیارے پر طے کرتا ہے ، ثابت قدمی کے ساتھ ، واضح بصیرت کے ساتھ اور مانوس ضمیر کے ساتھ۔

جب انسان اس زاویہ سے اپنے ماحول میں پائے جانے والی اس کائنات کی حقیقت کو پالیتا ہے ۔ پھر وہ یہ بات متعین کرلیتا ہے کہ اس دنیا میں اس کا کردار کیا ہے ؟ اور اس کردار کو ادا کرنے کے لئے اسے یہاں کیا کیا قوتیں دی گئی ہیں تو اس علم و معرفت سے اسے اطمینان ، سکون اور خوشی حاصل ہوتی ہے۔ کہ اس کے ماحول میں جو کچھ ہو رہا ہے ، اور اسے جو کچھ پیش کر رہا ہے ، اس کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ اس کا محرک کون ہے یا خود وہ کہاں سے آرہا ہے ؟ اور کیوں آیا ہے ؟ کہاں جا رہا ہے ؟ اور وہاں اسے کیا ملنے والا ہے۔ کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اس کا مقصد زندگی کیا ہے ، اور اسے جو کچھ پیش آ رہا ہے وہ اس کا مقصدر ہے۔ اور ہو کر رہنا ہے۔ اور یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ اور یہ کہ چھوٹے بڑے کاموں پر اسے جزا ملے گی ۔ وہ عبث نہیں پیدا کیا گیا۔ نہ وہ شتر بےمہار ہے ، نہ وہ اکیلا جائے گا۔

اس تصور اور شعور سے انسانی زندگی قلق ، بےچینی ، حیرت ، استعجاب اور لا علمی (بابت آغاز و انجام ) کی پریشانی سے نجات پا لیتی ہے۔ نہ اسے راستے کی بےچینی ہوتی ہے اور نہ وہ اپنے آنے اور جانے سے پریشان ہوتا ہے۔ ذرا عمر خیام کو سنئے وہ پریشان ہے : “ مجھے جامہ حیات ، میرے پوچھے بغیر پہنا دیا گیا ، اس حیات کے دوران میں مختلف باتیں سوچتا رہا ، عنقریب جامہ حیات مجھ سے اتار لیا جائے گا اور مجھے معلوم نہیں ہے کہ میں کیوں آیا اور مجھے جانا کہاں ہے ؟”

پس ایک مومن نہایت ہی قلبی اطمینان سے یہ یقین رکھتا ہے اور بڑی خوشی دلی سے یہ اطمینان رکھتا ہے اور ایک ہشاش و بشاش چہرے کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ اسے عمر کا جامہ دست قدرت نے پہنایا ہے ۔ وہ دست قدرت علیم و قدیر کے طور پر اس کائنات میں متصرف ہے۔ اور وہ ہاتھ جس نے اسے جامہ حیات پہنایا ہے وہ زیادہ محکم اور رحیم و کریم ہے۔ لہٰذا اس کے ساتھ کسی مشورے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ کیونکہ انسان وہ سوچ پیش نہیں کرسکتا جس قدر علیم قدیر سوچ سکتا ہے اور انسان کو علیم و قدیر نے جامہ حیات اس مقصد کے لئے پہنایا ہے کہ اس نے اس کائنات میں ایک کردار ادا کرنا ہے۔ یہ اس کائنات کے اندر موجود چیزوں سے متاثر ہوگا اور ان کو متاثر کرے گا اور اس نے جو کر دار ادا کرنا ہے وہ اس کردار سے ہم آہنگ ہے جو اس دنیا میں تمام اشیاء ادا کر رہی ہیں۔ زندہ ہوں یا غیر زندہ ، ابتداء سے انتہا تک۔

پس ایک مومن جانتا ہے کہ وہ کیوں آیا ہے ، اسے یہ بھی معلوم ہے کہ اس نے جانا کہاں ہے ؟ اور وہ کسی فکری انتشار میں گرفتار نہیں ہوتا ۔ بلکہ وہ اپنا یہ سفر اور اپنا یہ کردار نہایت اطمینان سے ادا کرتا ہے۔ نہایت یقین کے ساتھ ، نہایت وثوق کے ساتھ ۔ کبھی تو یہ مومن درجہ ایمان میں اس قدر ترقی کرجاتا ہے کہ وہ اپنے یہ کردار اس قدر خوشی اور انبساط کے ساتھ ادا کرتا ہے کہ اس تحفہ حیات کی خوبصورتی کا شعور رکھتا ہے ، اور اسے ایک عظیم عطیہ سمجھتا ہے۔ اور اس عمر اور جامہ عمر کو خلعت شاہی سمجھتا ہے۔ وہ بادشاہ جو لطیف وخبیر اور جو جمیل اور ودودورحیم ہے اور جو کردار یہاں ادا کرنا ہے ، چاہے جس قدر مشقت کا باعث بن جائے وہ اسے ادا کر کے رب ذوالجلال کے ہاں پہنچ سکتا ہے۔

اور اس قسم کے پریشان کن شعور صرف ایمان کی وجہ سے غائب ہوجاتا ہے ، اس قسم کے شعور کے اندر میں بھی ایک عرصے تک گرفتار رہا ہوں۔ نہایت ہی کربناک پریشانیوں میں ، اس زمانے میں جب مجھے قرآن کے سایہ عاطفت میں آنے کی توفیق نہ ملی تھی۔ اور اس زمانے میں کہ اللہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر ابھی اپنے سایہ عاطفت کے اندر مجھے داخل نہ کردیا تھا۔ یہ شعور میری روح میں موجود تھا اور میں نے “ آزردہ دل ، آزردہ کند ۔۔۔۔۔ را ” کے بموجب یہ شعور پوری کائنات کو اڑھا دیا تھا۔

وقف الکون حائرا ابن یمضی

ولماذا وکیف لو شائ یمضی

عبث ضائع وجھد غبین

ومصیر مقنع لیس یرضی

( یہ پوری کائنات انگشت بدنداں ہے کہ یہ کہاں جا رہی ہے ، کیوں جار ہی ہے اور کس طرح جا رہی ہے ، اگر وہ جانا چاہے تو عبث جدو جہد ہے اور فانی دنیا ہے اور جب موت کا نقارہ بج جائے تو چاہے نہ چاہے ، جانا ہے) ۔

آج میں جانتا ہوں ، اور اللہ کے فضل وکرم سے جانتا ہوں کہ کوئی جدو جہد ضائع نہیں ہے ، یہ کیے کی جزاء وسزا ہے۔ کوئی جدو جہد اکارت نہیں جاتی ہے۔ اور انجام مرضی کے مطابق ہے اور عادل اللہ اور شفیق و رحیم رب کے پاس جانا ہے۔ اور یہ کہ یہ کائنات یہاں رکی نہیں رہے گی۔ اس کائنات کی روح رب تعالیٰ کی طرف متوجہ ہے اور اس کی حمد وثناء کر رہی ہے اور یہ اس کی مرضی کے مطابق چل رہی ہے۔ اور اس کے اس قانون کے مطابق چل رہی ہے جو اس کے لئے اس نے تیار کیا ہے اور نہایت ہی تسلیم و رضا ہے اور اطاعت امر کے ساتھ جارہی ہے۔

میں سمجھتا ہوں فکر و شعور کی دنیا میں بھی انسان کے لئے یہ بہت بڑی دولت ہے اور جسمانی اور اعصابی لحاظ سے بھی اور حسن کارکردگی ، جدو جہد اور تاثیر اور تاثر اس کے علاوہ ہیں۔

ایمان جس طرح انسانی جسم و روھ کے لئے ایک قوت مجسمہ ہے ، اسی طرح وہ ایک اقدامی قوت بھی ہے۔ جو نہی کسی دل میں ایمان جاگزیں ہوتا ہے وہ عملی جدو جہد کی شکل میں پھر جسم سے باہر آتا ہے ایمان کی جو صورت ذہن میں ہوتی ہے ۔ وہ ایمان کی اس صورت کے ساتھ ہمقدم ہوتی ہے جو خارج میں عملی دنیا میں ہوتی ہے اور انسان کی قوائے متحرکہ پر ایمان قابض ہوجاتا ہے اور اسے ایمان راستے کی طرف بڑھاتا ہے۔

“ یہ ہے وہ راز جس کی وجہ سے نفس کے اندر عقیدے کی قوت مضمر ہے اسی طرح ایک مومن ہونے کی وجہ سے نفسیاتی قوتوں میں اضافے کا راز بھی یہی ہے ۔ نظریہ کی وجہ سے دنیا میں جو عجائبات و معجزات صادر ہوتے ہیں اور ہوتے رہے ہیں ان کا راز یہی ہے ان معجزات کی وجہ آئے دن زندگی کا چہرہ بدل جاتا ہے۔ یہ ایمان اور نظریہ ہی ہے جس کے لئے لوگ یہ فانی زندگی بھی قربان کردیتے ہیں اور اس زندگی میں قدم رکھتے ہیں جو کبھی فانی نہیں ہوتی اور ایک نہایت ہی ضعیف اور چھوٹا شخص بھی ایک بادشاہ ، ایک ڈکٹیٹر کے سامنے سر اٹھا کر چلتا ہے اور آگ اور لوہے کی قوتوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتا اور پھر وہ وقت آتا ہے کہ ایمان کے سامنے بارود شکست کھاجاتی ہے۔ یہ صرف ایک انسان نہیں ہوتا جو ان عظیم قوتوں کو شکست دے دیتا ہے بلکہ وہ ایک عقیدہ ہوتا ہے جو ان قوتوں کو پاش پاش کردیتا ہے بلکہ یہ وہ عظیم ایمان قوت کا سرچشمہ ہے جس سے انسانی روح قوت حاصل کرتی ہے۔ یہ سرچشمہ کبھی خشک نہیں ہوتا ، کبھی اس میں کمی نہیں آتی ، یہ کبھی کمزور نہیں ہوتا ”۔

“ یہ معجزانہ تغیرات جو ایک نظریہ ، ایک فرد اور ایک سوسائٹی کے اندر رونما کرتا ہے ، کوئی ایسا نظریہ نہیں کرسکتا جو خرافات اور افسانوں پر قائم ہوتا ہے ، جو ناقابل فہم ہو یا محض خوف اور حیرانگی اور تخیلاتی ہو بلکہ وہ عقیدہ کرسکتا ہے جو قابل فہم اور مضبوط اصولوں پر مبنی ہو۔ حقیقی دینی عقیدہ وہ ہوتا ہے جو انسان کو اس کائنات کی ظاہری اور باطنی قوتوں کے ساتھ یکجا کر دے اور انسان کی روح کے اندر اعتماد اور اطمینان پیدا کر دے۔ اور اس کے اندر ایک ایسی قوت پیدا کر دے جس کے ساتھ وہ تمام ناپائیدار اور زائل ہونے والی باطل قوتوں کا مقابلہ کرے اور اسے یقین ہو کہ آخر کار وہ فتح یاب ہوگا۔ یہ اعتماد اسے اللہ کی ذات سے حاصل ہو۔ اور یہ عقیدہ ایسا ہو جو انسان کو یہ بتاتا ہو کہ وہ اپنے ماحول کے واقعات سے ، ماحول کی تمام چیزوں اور تمام لوگوں کے ساتھ متعلق ہے۔ یہ عقیدہ انسان کو اس کی منزل بھی دکھائے اور اس کا انجام بھی بتائے۔ اس کی پوری قوتوں کو مجتمع کرے اور ایک رخ پر ڈال دے۔ یہ ہے عقیدے کی قوت کا راز۔ کہ وہ تمام قوتوں کو مجتمع کر کے ایک محور کے گرد گھما دیتا ہے۔ ان کو ایک سمت عطا کرتا ہے۔ انسانوں کو ان کا ہدف معلوم ہوتا ہے اور وہ اپنے اس نصب العین کی طرف نہایت قوت ، یقین اور اعتماد سے بڑھتے ہیں۔

غرض عقیدے اور نظریات کی قوت میں یوں بھی اضافہ ہوجاتا ہے کہ یہ اس طرف جاتے ہیں جس طرف یہ پوری کائنات جاتی ہے۔ پوری کائناتی قوتیں جاتی ہیں ، ظاہری یا باطنی ہوں ۔ کیونکہ کائنات کے اندر جتنی بھی قوتیں ہیں وہ ایمان کے راستے پر چل رہی ہیں۔ یوں ایک مومن کے لئے یہ کائناتی قوتیں رفیق سفر ہوتی ہیں اور اس طرح یہ ایمانی قوت اور کائناتی قوتیں مل کر باطل پر حملہ آور ہوتی ہیں ، اگرچہ باطل بظاہر بڑی قوت نظر آئے اور آنکھوں کی چکا چوند کردینے والی ہو لیکن ایمانی قوت سے وہ پاش پاش ہو کر رہے گی۔

اللہ نے ہم سے کہا : یمنون علیک ان ۔۔۔۔۔ ان کنتم صدقین (49 : 17) “ یہ لوگ تم پر احسان جتاتے ہیں کہ انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ ان سے کہو ، اپنے اسلام کا احسان مجھ پر نہ رکھو بلکہ اللہ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت کی ، اگر تم واقعی سچے ہو ”۔ یہ ہے وہ عظیم دولت جس کا مالک بھی اللہ ہے اور جس کا بخشنے والا بھی اللہ ہے۔ اور اللہ دولت ایمان اسی کے حوالے کرتا ہے جس کے بارے میں اسے علم ہوتا ہے کہ یہ اس فضل عظیم کا مستحق ہے۔

اللہ نے سچ کہا ، جو شخص ان حقائق و علوم کے ساتھ دوستی کرلے اور یہ معانی اور یہ شعور اسے حاصل ہوجائے اور ان کے اندر وہ زندہ ہو اور وہ اس کے اندر اس چھوٹے سے سیارے پر معمولی حالات میں مختصر زندگی گزار رہا ہو اس نے گویا کچھ بھی نہیں کھویا اور جو شخص اس دولت سے محروم ہوگیا ، وہ اگر ناز ونعم کی زندگی بھی بسر کرے ، اس طرح زیادہ کھائے پئے جس طرح مویشی بہت سا کھاتے اور پیتے ہیں ، تو وہ جان لے کہ اس سے یہ مویشی اچھے ہیں جو اپنی فطرت کے اعتبار سے خالق کریم کے مطیع فرمان ہیں۔