اب بات ان لوگوں کی طرف آتی ہے جو منافق ہیں ، اندھے ہیں ، غافل ہیں ، جو مجلس رسول سے ایسی حالت میں نکلتے ہیں کہ جو کچھ انہوں نے سنا اس سے کوئی نفع نہیں اٹھایا۔ ہدایت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ ان کے دلوں کے اندر خدا کا کوئی خوف پیدا نہ ہوا۔ چناچہ یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ حساب و کتاب کا دن بہت ہی جلدی آنے والا ہے۔
فھل ینظرون الا الساعۃ ۔۔۔۔۔ ذکرھم (47 : 18) “ اب کیا یہ لوگ بس قیامت ہی کے منتظر ہیں کہ وہ اچانک ان پر آجائے ؟ اس کی علامات تو آچکی ہیں۔ جب وہ خود آجائے گی تو ان کے لئے نصیحت قبول کرنے کا کون سا موقع باقی رہ جائے گا ؟”
ان آیات میں منافقین کو ایک زبردست جھٹکے کے ساتھ جگایا جاتا ہے اور گریبان سے پکڑ کر ان کو اس طرح جھنجھوڑا جاتا ہے جس طرح کسی نشے میں دھت شخص کو کھینچا جاتا ہے ۔ یعنی یہ غافل لوگ جو رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں جاتے ہیں اور وہاں سے کچھ ہدایت لیے بغیر ، کچھ یاد کئے بغیر ، کچھ نصیحت پکڑے بغیر ، کورے کے کورے واپس ہوئے۔ یہ بدبخت اب کس چیز کا انتظام کرتے ہیں۔
فھل ینظرون الا الساعۃ ان تاتیھم بغتۃ (47 : 18) “ کیا یہ لوگ بس قیامت ہی کے منتظر ہیں کہ اچانک آجائے ”۔ اور ان کے حالات یہ ہوں کہ یہ غفلت اور لاپرواہی میں ، اور فسق و فجور میں غرق ہوں۔
اگر یہ لوگ قیامت ہی چاہتے ہیں تو :
فقد جاء اشراطھا (47 : 18) “ اس کی علامات تو آچکی ہیں ”۔ یہ آخری رسالت قیامت کی بڑی نشانی ہے۔ یہ رسالت دراصل اعلان ہے کہ اب قیامت جلد ہی آنے والی ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : بعثت انا والساعۃ ۔۔۔۔ “ میں اور قیامت ان دو کی طرح مبعوث ہوئے ہیں ”۔ آپ نے اپنی دو انگلیوں سبابہ اور درمیان انگلی کو جوڑ کر اشارہ فرمایا (متفق علیہ) ۔ حضور اکرم ﷺ سے ادھر اگر زمانہ لوگوں کو زیادہ طویل ہوتا ہوا نظر آتا ہے تو اللہ کے ایام ہمارے ایام کے مقابلے میں بہت ہی طویل ہوتے ہیں۔ اللہ کے حساب میں قیامت کی نشانی آگئی ہے۔ اور بڑی نشانی یہ آخری رسالت ہے۔ اور یہ کسی عقلمند شخص کی روش نہیں ہو سکتی کہ مصیبت آئے اور وہ سویا ہوا ہو۔ اور وہ پھر بچاؤ کی کوئی تدبیر نہ کرسکے۔
فانی لھم اذا جاءتھم ذکرھم (47 : 18) “ جب وہ آجائے گی تو ان کے لئے نصیحت قبول کرنے کا کون سا موقعہ باقی رہ جائے گا ”۔ یہ نہایت ہی قوت سے جھنجھوڑنے کے متراد ہے کہ جاگو ، خطرہ سر پر ہے اور سختی کے ساتھ گریبان سے پکڑ کر ہلانا ، اس سورت کے سخت انداز کے بھی مناسب ہے۔