Вы читаете тафсир для группы стихов 30:46 до 30:51
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

ومن ایتہ ان یرسل ۔۔۔۔۔ من بعدہ یکفرون (46 – 51)

ان آیات میں بظاہر نہایت مختلف النوع موضوعات کو جمع کیا گیا ۔ بشارت دینے والی ہوائیں ، رسولوں کو معجزات اور نشانیوں کے ساتھ بھیجنا ، مومنین کا رسولوں کے ذریعہ مدد کرنا ، ایسی بارشوں کا نزول جو مردہ زمین کو زندہ کردیتی ہیں اور بعث بعد الموت کا مسئلہ۔ یہ اجتماع بامقصد ہے۔ یہ سب چیزیں اللہ کی رحمت کی نشانیاں ہیں۔ یہ سب سنت الہیہ کے مظاہر ہیں ، یہ سب اس کائنات کے نظام کے تحت ہیں ، رسولوں کو ہدایت کے ساتھ بھیجنے اور مومنین کی نصرت کے درمیان گہرا تعلق ہے اور یہ سب آیات الہیہ کے مختلف نمونے ہیں۔ یہ سب امور اللہ کی نعمتوں اور رحمتوں سے متعلق ہیں۔ لوگوں کی زندگی ان سب امور پر موقوف ہے اور یہ سب امور نظام کائنات کے ساتھ متعلق ہیں۔

ومن ایتہ یرسل الریاح مبشرت (30: 46) ” اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ ہوائیں بھیجتا ہے بشارت دینے کے لیے “۔ یہ ہوائیں بارشیں برساتی اور پھیلاتی ہیں۔ یہ لوگ بارش برسانے والی ہواؤں کو خوب جانتے تھے۔ اس سلسلے میں ان کو مہارت اور تجربہ حاصل تھا۔ جب ایسی ہوائیں چلتیں تو یہ لوگ خوش ہوتے۔

ولیذیقکم من رحمتہ (30: 46) ” تاکہ وہ انہیں اپنی رحمت سے بہرہ مند کرے “۔ اس رحمت کے نتیجے میں سرسبزی اور شادابی اور روئیدگی ہوتی ہے۔

ولتجری الفلک بامرہ (30: 46) ” تاکہ کشتیاں اس کے حکم سے چلیں “۔ یہ کشتیاں اس طرح بھی چلتی ہیں کہ یہ ہوائیں انہیں چلاتی ہیں اور یوں بھی کہ ہواؤں سے بارش برستی ہے ، دریا بہتے ہیں اور ان میں کشتیاں چلتی ہیں۔ یہ ان ظاہری اسباب کے باوجود امر الٰہی سے چلتی ہیں۔ اس سنت الہیہ کے مطابق جس کے مطابق اللہ نے اس کائنات کو بنایا ہے۔ اللہ کے اس نظام تقدیر کے مطابق کہ اللہ نے ہر چیز کے اندر ایک خاصیت مقدر کردی ہے۔ مثلاً یوں کہ پانی کی سطح پر کشتی کو ہلکا بنایا اور وہ چلنے لگی۔ اور یوں کہ یہ کشتی ہوا اور موجوں کے رخ پر اور ہوا اور موجوں کے رخ کے تصاد میں چلے۔ اللہ نے ہر چیز کو ایک مقدار کے مطابق بنایا ہے۔

ولتبتغوا من فضلہ (30: 46) ” تاکہ تم اللہ کا فضل تلاش کرو “۔ یعنی تجارتی سفروں میں اور فصل کاٹنے میں ، لین اور دین میں یہ سب امور اللہ کے فضل سے ہیں اور اللہ نے ہر چیز کو ایک مقدار کے مطابق پیدا کیا ہے۔ ۔۔۔ پورا پورا۔

ولعلکم تشکرون (30: 46) ” تاکہ تم شکر کرو “۔ یہ سب امور فضل الٰہی ہیں اور ان پر تم شکر کرو۔ یہ تمام امور ایسے ہیں جن کے مقابلے میں بندگان خدا کا فرض ہے کہ وہ اللہ کی ان نعمتوں کے مناسب رویہ اختیار کریں۔ ہواؤں کے بھیجنے کی طرح رسولوں کا بھیجنا بھی انسانوں پر اللہ کا فضل و کرم ہے۔

ولقد ارسلنا ۔۔۔۔ بالبینت (30: 47) ” اور ہم نے تم سے پہلے رسولوں کو ان کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر آئے “۔ لیکن لوگوں نے اللہ کی اس رحمت کا انتظار نہ کیا حالانکہ اللہ کی یہ رحمت ایسی تھی کہ ان کو اس کا استقبال تو ہواؤں سے زیادہ کرنا چاہئے تھا۔ ان لوگوں نے رسولوں سے کوئی استفادہ نہ کیا حالانکہ یہ نفع زیادہ اور دائمی نفع تھا بمقابلہ بارش اور پانی کے منافع کے اور رسولوں کے مقابلے میں یہ لوگ بٹ گئے۔ ایک گروہ ان ، مجرمین کا تھا جو ایمان نہ لاتے تھے۔ اللہ کی آیات پر تدبر نہ کرتے تھے۔ رسولوں کو اذیت دینے سے بھی نہ چوکتے تھے ، اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے باز رکھنے کے جرم سے بھی باز نہ آتے تھے۔ دوسرا گروہ ان مومنین کا تھا جو اللہ کی آیات کو سمجھ جاتے تھے۔ اللہ کا شکر ادا کرتے تھے ، اللہ کے وعدوں پر اعتماد کرتے تھے اور وہ ان مجرمین کے ہاتھوں اذیتیں برداشت کرتے۔ بہت زیادہ اذیتیں۔ چناچہ انجام وہی ہوتا تھا جو اللہ کے عدل کے مطابق تھا اور اللہ کا وعدہ ہمیشہ پختہ ہوتا ہے۔

فانتقمنا من الذین ۔۔۔۔۔ نصر المومنین (30: 47) ” پھر جنہوں نے جرم کیا ان سے ہم نے انتقام لیا اور ہم پر یہ حق تھا کہ ہم مومنوں کی مدد کریں “۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے اوپر مومنین کی امداد فرض کرلی۔ اور اسے مومنین پر محض فضل و کرم کے بجائے ان کا حق قرار دیا۔ اسے اس انداز میں موکد قرار دیا اور لازمی قرار دیا کہ اس امداد میں کوئی شک و شبہ نہ رہا اور شک و شبہ ہو بھی کیسے سکتا ہے جب وعدہ کرنے والا اللہ ہو ، جو قوی ، عزیر اور جبار ہے۔ وہ بلند اور اپنے بندوں پر کنٹرول کرنے والا اور حکیم وخبیر ہے۔ یہ اللہ فرماتے ہیں جس کا ارادہ کبھی رد نہیں ہوتا اور اس کی سنت کبھی بھی ٹلنے والی نہیں ہوتی کیونکہ اس کا ناموس فطرت اس پوری کائنات میں جاری ہے۔

بعض اوقات یہ نصرت بظاہر دیر میں آتی ہے لیکن یہ دیر انسانوں کے اپنے اندازوں کے مطابق ہوتی ہے کیونکہ لوگ معاملات کا حساب اپنے پیمانوں سے کرتے ہیں ، اللہ کے پیمانوں سے نہیں کرتے۔ معاملات کا اندازہ اللہ کے اندازوں کے ساتھ نہیں کرتے اور اللہ حکیم اور خبیر ہے۔ وہ جانتا ہے کہ امداد کا صحیح وقت کون سا ہے۔ اس کا وعدہ اس وقت سچ ہوتا ہے جس وقت اللہ کی مشیت ہو۔ اس کی حکمت کا تقاضا ہو ، اللہ جو وقت مقرر کرتا ہے اس کی حکمت بعض اوقات انسانوں کو معلوم ہوتی ہے اور بعض اوقات معلوم نہیں ہوتی لیکن اللہ جو چاہتا ہے ، وہی بہتر ہوتا ہے اور اللہ جو وقت مقرر کرتا ہے وہی صحیح ہوتا ہے۔ لیکن اللہ کا وعدہ قطعی ہے اور عین الیقین ہے اور صبر کرنے والے ، اس پر بھروسہ کرنے والے بڑے اطمینان سے اس کا انتظار کرتے ہیں۔

اس کے بعد کہا جاتا ہے کہ یہ اللہ ہی ہے جو ہوائیں بھیجتا ہے ، جو بارشیں برساتی ہیں۔ جن سے زمین زندہ ہوتی ہے حالانکہ وہ مر چکی تھی۔ بس یہی انداز ہوگا حشر میں لوگوں کے اٹھائے جانے کا ۔ یہی انداز ہوگا۔ فصل کی طرف لوگ زمین سے اگ آئیں گے۔ یہ دونوں اس کائنات کے طبیعی سنن ہیں۔

اللہ الذی یرسل الریع (30: 48) ” اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے “۔ یہ ہوائیں اس کے قانون قدرت کے مطابق چلتی ہیں اور یہ قانون اس کائنات میں اچھی طرح متصرف ہے۔

فتثیر سحابا (30: 48) ” وہ بادل اٹھاتی ہیں “۔ اور یہ ہوائیں پانی کے بخارات اٹھاتی ہیں۔ ان بخارات کو وہ آسمانوں میں پھیلاتی ہیں۔ فیبسطہ فی السمآء کیف یشآء (30: 48) ” پھر ان کو آسمانوں میں پھیلاتا ہے جس طرح چاہتا ہے “۔

ویجعلہ کسفا (30: 48) ” پھر انہیں ٹکڑیوں میں تقسیم کرتا ہے “۔ یعنی جمع کرتا ہے۔ وہ کثیف اور بوجھل بن جاتے ہیں۔ وہ پھر ایک دوسرے کے اوپر اور نیچے تہوں میں جم جاتے ہیں۔ بعض ٹکڑیوں کا بعض کے ساتھ تصادم ہوتا ہے۔ پھر بجلیاں چمکتی ہیں ۔ فتری الودق یخرج من خللہ (30: 48) ” پھر تو دیکھتا ہے کہ بارش کے قطرے بادل میں سے ٹپکتے چلے آتے ہیں “۔ ودق کے معنی بارش کے ہیں جو بادلوں سے نکلتی ہے۔

فاذزا اصاب ۔۔۔۔۔ یستبشرون (30: 48) ” یہ بارش جب وہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے ، برساتا ہے تو یکایک وہ خوش و خرم ہوجاتے ہیں “۔ اسی خوشی کو اچھی طرح وہ لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کی زندگی بارش پر موقوف ہوتی ہے۔ عرب اس منظر سے اچھی طرح واقف تھے جن کی پوری معیشت آسمانوں کے پانیوں پر موقوف تھی اور ہے اس کا تذکرہ وہ اپنے اشعار اور اپنی روایات و محاورات میں بڑی محبت سے کرتے ہیں اور بڑے فخر و مباہات کے ساتھ کرتے ہیں۔

وان کانوا من۔۔۔۔۔ قبلہ لمبلسین (30: 49) ” حالانکہ اس کے نزول سے پہلے وہ مایوس ہو رہے تھے “۔ یہ تو ہے ان کی حالت اس وقت جب بارش نہ برسی ہوئی تھی۔ وہ مایوس ہوتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ گویا وہ مرنے ہی والے ہیں۔ لیکن جب بارش آجاتی ہے تو وہ خوش و خرم ہوتے ہیں۔

فانظر الی اثر رحمت اللہ (30: 50) ” دیکھو ، اللہ کی رحمت کے اثرات کو “۔ ذرا ان خوش و خرم چہروں کو دیکھو جو بالکل مایوس ہوگئے تھے اور اس زمین پر ان آثار کو دیکھو جو تباہ شدہ تھی اور مردہ تھی۔ اور ذرا اس زندگی میں دیکھو جو زمین پر چلتی پھرتی ہے اور اسے ذرا لوگوں کے دلوں میں دیکھو کہ خوشی کی وجہ سے ان میں کیا کیا امنگیں پیدا ہوتی ہیں۔

یحی الارض بعد موتھا (30: 50) ” کہ مردہ پڑی ہوئی زمین کو کس طرح جلا اٹھاتا ہے “۔ یہ تو ایک ایسی حقیقت ہے جو ہر شخص دیکھ سکتا ہے۔ اسکے دیکھنے کیے ” کسی زیادہ عقل کی ضرورت نہیں ہے۔ یہی بات دلیل روشن ہے اس پر کہ حشر کے دن اس زمین سے انسان اسی طرح اگ آئیں گے۔ یہ قرآن کریم کا وجدانی طرز استدلال ہے کہ وہ اس کائنات کے قابل مشاہدہ مناظر سے عقائد اور مستقبل کے واقعات اور امکانیات ثابت کرتا ہے۔ قرآن انہی پیش پا افتاد مناظر سے اپنا مدعا ثابت کرتا ہے۔

ان ذلک ۔۔۔۔۔ شئ قدیر (30: 50) ” یقیناً وہ مردوں کو زندگی بخشنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے “۔ اس زمین پر اللہ کی رحمت کے یہ آثار بتاتے ہیں کہ اللہ کا یہ وعدہ سچا ہے کہ وہ لوگوں کو اٹھائے گا اور ان کا اچھا یا برا انجام ہوگا ، حسب وعدہ الٰہی

اس حقیقت کی تصویر کشی کے بعد یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ لوگ پانی سے لدے ہوئے بادل لانے والی ہواؤں کی آمد پر خوش ہوتے ہیں اور جب وہ اللہ رحمت کے آثار بادلوں اور بارش کی صورت میں دیکھتے ہیں تو خوش و خرم ہوتے ہیں۔ یہی لوگ اگر دیکھیں کہ یہ ہوا اور یہ بادل زرد ہیں ، ان ہواؤں میں پانی کے بجائے گرم ریت اور مٹی بھری ہوئی ہے۔ پانی کا قطرہ بھی نہیں ہے ، اور یہ ہوا ایسی ہے کہ فصلوں کو زرد کرکے رکھ دیتی ہے اور دودھ پلانے والے جانوروں کو خشک کردیتی ہے اور جس سے فصل زرد ہو کر قبل از وقت خشک ہوکر بھوسہ بن جاتی ہے تو ان کی حالت یہ ہوتی ہے :

ولئن ارسلنا ۔۔۔۔۔ بعدہ یکفرون (30: 51) ” اور اگر ہم ایک ایسی ہوا بھیج دیں جس کے اثرات سے وہ اپنی کھیتی کو زرد پائیں تو وہ کفر کرتے رہ جائیں “۔ اس عذاب کو پاکر اور مایوس ہوکر بھی وہ کفر کریں۔ اور اللہ کی قدرت کا اقرار نہ کریں اور اللہ کے سامنے نہ گڑ گڑائیں کہ وہ اس مصیبت کو دور کرے بلکہ کفر کے رویہ ہی پر جم جائیں ، ایمان نہ لائیں اور یہ ہرگز نہ سمجھ سکیں کہ اللہ کی حکمت اور تدبیر کیا کیا کرتی ہیں۔ ان کو ان مصیبتوں کے پیچھے دست قدرت نظر نہ آئے۔ وہ ان واقعات اور حادثات کی تفسیر و تعبیر اس طرح نہ کریں کہ یہ سب کچھ اللہ کے قانون قدرت اور ناموس فطرت کے مطابق ہو رہا ہے ۔ بلکہ ابدی کافرانہ تاویلات ہیں۔ جب لوگ اس حد تک پہنچ جائیں کہ وہ اس دنیا کے واقعات اور حادثات کی تعبیر بھی اپنی خواہشات کے مطابق کرنے لگیں اور ان واقعات کے اندر جو اللہ کے نشانات و اشارات پنہاں تھے ، ان کو سمجھنے کی سعی ہی نہ کریں۔ اپنے ماحول کے اندر غور ہی نہ کریں۔ ان مشاہدات میں ان کو اللہ کی قدرت اور حکمت نظر ہی نہ آئے تو رسول اللہ ﷺ سے کہا جاتا ہے کہ بس ایسے لوگوں کو ہدایت دینے سے آپ ﷺ معذور ہیں۔ ایسے لوگوں کو ان کے مزاج کے حوالے کردیں کیونکہ ان کی بصیرت اور بصارت دونوں ختم ہوچکی ہیں۔

Получите максимум удовольствия от Quran.com!
Начните тур прямо сейчас:

0%