Вы читаете тафсир для группы стихов 11:48 до 11:49
قيل يا نوح اهبط بسلام منا وبركات عليك وعلى امم ممن معك وامم سنمتعهم ثم يمسهم منا عذاب اليم ٤٨ تلك من انباء الغيب نوحيها اليك ما كنت تعلمها انت ولا قومك من قبل هاذا فاصبر ان العاقبة للمتقين ٤٩
قِيلَ يَـٰنُوحُ ٱهْبِطْ بِسَلَـٰمٍۢ مِّنَّا وَبَرَكَـٰتٍ عَلَيْكَ وَعَلَىٰٓ أُمَمٍۢ مِّمَّن مَّعَكَ ۚ وَأُمَمٌۭ سَنُمَتِّعُهُمْ ثُمَّ يَمَسُّهُم مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌۭ ٤٨ تِلْكَ مِنْ أَنۢبَآءِ ٱلْغَيْبِ نُوحِيهَآ إِلَيْكَ ۖ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَآ أَنتَ وَلَا قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَـٰذَا ۖ فَٱصْبِرْ ۖ إِنَّ ٱلْعَـٰقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ ٤٩
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

جب تمام برے لوگ غرق ہوچکے تو طوفان تھم گیا۔ پانی دھیرے دھیرے زمین میں اور سمندروں میں چلا گیا۔ حضرت نوح کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہر گئی تھی، آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس سے نکل کر زمین پر اترے۔ زمین دوبارہ خداکے حکم سے سرسبز اور آباد ہو گئی۔

حضرت نوح جن لوگوں کے درمیان آئے وہ حضرت آدم کی نبوت کو ماننے والے لوگ تھے۔آپ کے بعد آپ کی امت ابتداء ً راہ راست پر رہی۔ اس کے بعد اس کی اگلی نسلوں میں بگاڑ آیا تو دوبارہ انبیاء بھیجے گئے۔ یہ بعد کو آنے والے انبیاء ان قوموں میں آئے جو حضرت نوح کی نبوت کو مانتی تھیں۔ اس کے باوجود جب انھوں نے وقت کے نبی کو مان کر اپنی اصلاح نہ کی تو وہ ہلاک کر دی گئیں ۔ گویا صرف کسی نبی کوماننا یا اس کی طرف اپنے کو منسوب کرنا نجات یافتہ ہونے کے لیے کافی نہیںہے۔ بلکہ وہ ایمان مطلوب ہے جو زندہ ایمان ہو اور جس کے اندر یہ طاقت ہو کہ وہ آدمی کی زندگی کو نیک عملی کی زندگی میں تبدیل کردے۔

حضرت نوح کی تاریخ یہ سبق دیتی ہے کہ باطل پرستوں کا زور خواہ کتنا ہی زیادہ ہو اور ان کی زندگی خواہ کتنی ہی طویل ہوجائے، بالآخر ان کے لیے جو چیز مقدر ہے وہ ہلاکت ہے۔ اور اس کے مقابلہ میں اہلِ ایمان خواہ کتنے ہی کم ہوں اور خواہ وہ بظاہر کتنے ہی بے زور ہوں۔ مگر جب خدا کا فیصلہ ظاہر ہوتا ہے تو یہی لوگ ہیں جو خدا کی رحمتوں میں حصہ دار بنائے جاتے ہیں، ابتداء ً موجودہ دنیا میں اور آخری طورپر آخرت میں۔