واذا مس الانسان الضر دعانا لجنبه او قاعدا او قايما فلما كشفنا عنه ضره مر كان لم يدعنا الى ضر مسه كذالك زين للمسرفين ما كانوا يعملون ١٢
وَإِذَا مَسَّ ٱلْإِنسَـٰنَ ٱلضُّرُّ دَعَانَا لِجَنۢبِهِۦٓ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَآئِمًۭا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُۥ مَرَّ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَآ إِلَىٰ ضُرٍّۢ مَّسَّهُۥ ۚ كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ ١٢
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

واذا مس الانسان الضر اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے۔ الضر سے مراد ہے سختی ‘ مصیبت۔

دعانا لجنبہ او قاعدًا او قائمًا تو وہ (نجات و خلاص کیلئے) ہم کو پکارتا ہے پہلو کے بل (یعنی لیٹ کر) یا بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر۔ یعنی مصیبت دور ہونے کی ہر حالت میں فوراً ہم سے دعا کرتا ہے لیٹے لیٹے ‘ بیٹھے بیٹھے ‘ کھڑے کھڑے۔

فلما کشفنا عنہ ضرہ مر پھر جب ہم اس کی تکلیف ہٹا دیتے ہیں ‘ کھول دیتے ہیں تو وہ اپنے سابق طریقے پر قائم رہتا ہے ‘ کفر کرتا رہتا ہے ‘ ناشکری کرتا ہے۔

کان لم یدعنا معلوم ہوتا ہے کہ (مصیبت اور دکھ کی حالت میں) اس نے ہم سے دعا ہی نہیں کی تھی ‘ ہم کو پکارا ہی نہ تھا۔

الی ضر مسہ اس مصیبت کو دور کرنے کیلئے جو اس کو پہنچی تھی۔

کذلک زین للمسرفین ما کانوا یعملون۔ ان حد سے گذرنے والوں کو ان کے اعمال اسی طرح مستحسن معلوم ہوتے ہیں۔ یعنی خواہشات نفس میں انہماک اور ذکر و عبادت سے اعراض کو ان کی نظر میں محبوب بنا دیا جاتا ہے۔